Maktaba Wahhabi

61 - 127
غامدی صاحب جتنی عقل واہلیت کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ غامدی صاحب نے کچھ مسائل کا تذکرہ بھی کیا کہ ان مسائل کے بارے میں جدید ذہن کے شبہات و سوالات کاجوابات دینے سے علما قاصر ہیں ۔اگر تو جواب سے مراد جدید ذہن کی خواہشِ نفس کے مطابق جواب ہے تو واقعتاً علما اس قابل نہیں ہیں کہ جدید ذہن کو ان کے شبہات کا جواب ان کے من چاہے تصورِ دین کی صورت میں دیں ۔اور اگر جوابات سے مراد ان شبہات و سوالات کے بارے میں قرآن وسنت کی رہنمائی کو پیش کرنا ہے تو شاید غامدی صاحب کے تحقیقی ادارہ’ المورد‘ کی لائبریری میں اتنی کتابیں نہ ہوں گی،جتنے ایم اے، ایم فل اورپی ایچ ڈی کی سطح کے مقالہ جات کے علاوہ تحقیقی کتب ان سوالات کے جوابات میں عالم عرب میں بالخصوص اور عالم اسلام میں بالعموم لکھی جا چکی ہیں ۔ بہرحال غامدی صاحب نے رسالہ ’اجتہاد‘ کے بجائے اپنے رسالے’اشراق‘ میں ایک جگہ اپنے تصورِ اجتہاد کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: ’’اجتہاد کا لغوی مفہوم کسی کام کو پوری سعی و جہد کے ساتھ انجام دینا ہے۔ اس کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ جس معاملے میں قرآن وسنت خاموش ہیں ، اس میں نہایت غور و خوض کر کے دین کی منشا کو پانے کی جدوجہد کی جائے۔۔۔اس اصطلاح کو اگر مذکورہ روایت کی روشنی میں سمجھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اجتہاد سے مراد اپنی عقل و بصیرت سے ان اُمور کے بارے میں رائے قائم کرنا ہے جن میں قرآن وسنت خاموش ہیں یا اُنہوں نے کوئی متعین ضابطہ بیان نہیں کیا۔‘‘ (ماہنامہ’ اشراق‘: جون ۲۰۰۱،ص۲۷،۲۸) غامدی صاحب کو بس یہی فکر کھائے جاتی ہے کہ کسی طرح قرآن و سنت کو خاموش کروا دیں ۔ بس جب ایک دفعہ ثابت ہو جائے گا کہ قرآن و سنت تو ان مسائل میں خاموش ہیں ۔اب چاہے حکم شرعی معلوم کرنے کے لیے عقل عام (Common Sense)کے فلسفہ سے رہنمائی حاصل کر لیں یانام نہاد فطرتِ انسانی کے نظریے کے تحت شریعت کا ڈھانچہ تشکیل دینا شروع کر دیں ۔ غامدی صاحب اس لحاظ سے تمام دانشوروں میں عقل مند ثابت ہوئے ہیں کہ اُنہوں نے اس نکتے تک رسائی حاصل کر لی ہے کہ جب تک یہ فکر عام ہے کہ قرآن و سنت میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے، اس وقت تک ان جیسوں کے اجتہادی فکر کو قبولِ
Flag Counter