۱۔ جناب ڈاکٹر محمد خالد مسعود، پی ایچ ڈی اسلامیات، میک گل یونیورسٹی، کینیڈا ۲۔جناب ڈاکٹر منظور احمد، پی ایچ ڈی، لندن یونیورسٹی ۳۔جناب جسٹس(ر) ڈاکٹر رشید احمد جالندھری ، پی ایچ ڈی ، کیمبرج یونیورسٹی ۴۔جناب جسٹس(ر) ڈاکٹر منیر احمد مغل، سابق جج لاہور ہائی کورٹ ۵۔جناب جسٹس(ر)حاذق الخیری ۶۔جناب پروفیسر مظہر سعید کاظمی ۷۔محترمہ ڈاکٹر پروفیسر سید بی بی ۸۔جناب حاجی محمد حنیف طیب ۹۔جناب مولانا عبد اللہ خلجی ۱۰۔جناب پیر سید دامن علی کیا ان اراکین کی اکثریت مدارسِ دینیہ کے نظام تعلیم سے ہی گزری ہے۔یایہ حضرات عوام کے ہاں معتمد علماے دین شمار ہوتے ہیں ؟ ہمارا خیال یہ ہے کہ غامدی صاحب نے، علماء کے نام سے جو تین،چار افراد سیاسی بنیادو ں پر کونسل کے رکن بنائے گئے تھے، کودھکے سے طبقہ علماء کے قائد و رہنماباور کراتے ہوئے علما پر نقد کے اس موقع کو غنیمت سمجھا تھا۔ حالانکہ ان دوچارعلما میں سے کسی کی اگر کوئی اہمیت ہے بھی تو یہی کہ وہ صاحب اقتدار کی خوشامد وچاپلوسی کے ماہر ہیں ۔مولانا عبد اللہ خلجی صاحب دامت برکاتہ کے بارے میں پرویز مشرف کی بلائی گئی ایک مجلس کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں بتایا گیا کہ اس مجلس کے دوران خوشامدی حضرات کا مقابلہ ہو رہا تھا جس میں جناب عبد اللہ خلجی کافی نمایاں تھے، لیکن جب وہاں سے نکل کر سرکاری گاڑی میں بیٹھے تو پرویز مشرف کی برائیاں شروع کر دیں ، اُنہیں جب یاد کرایا گیا کہ آپ وہی عبد اللہ خلجی ہیں جو مجلس میں خوشامد کرنے میں سب سے پیش پیش تھے توکہنے لگے کہ ہم یہاں اپنے کاموں کے لیے آتے ہیں ، ہم کوئی مخلصانہ مشورہ دینے تونہیں آتے۔خوشامد ہماری ضرورت ہے۔ غامدی صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ قرآن وسنت جن مسائل میں خاموش ہیں ، علما ان مسائل میں اجتہاد کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں ۔ہم غامدی صاحب کی اس بات سے یک گونہ متفق ہیں ، کیونکہ ثقہ علماء کے تصورِ اجتہاد کے مطابق قرآن وسنت کسی بھی مسئلے میں کبھی خاموش نہیں ہوتے، لہٰذا علما کو قرآن و سنت کو خاموش کرانے اور نئی شریعت وضع کرنے کے لیے |