تعلیم وتعلّم برٹرینڈ رَسل مترجم: جی آر عزیز تعلیم میں حب ِوطن کا مقام برٹرینڈ رسل برطانیہ کا عظیم مفکر اورفلسفی گزرا ہے، اس کے زیر نظر مضمون میں مشہور فلسفہ ’حب ِوطن‘ کا ناقدانہ جائزہ لیاگیا ہے جو جہاں حقیقت شناسی کی عمدہ مثال ہے ، وہاں مغربی اقوام کے مذموم ریاستی مقاصد پر بھی اچھے انداز میں روشنی ڈالتا ہے۔ جدید ریاست ابھی تک حب ِوطن کی یہی تعلیم دینے پر مصر ہے، جس سے انسانیت میں سرزمین وطن سے محبت کے نام پر نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں ۔ ح م ہر آدمی بہت سے مقاصد اور خواہشات رکھتا ہے جن میں سے بعض تو خالص ذاتی ہوتی ہیں اور بعض ایسی جن کے بارے میں وہ دوسرے بہت سے لوگوں سے اشتراک کرسکتاہے؛ مثلاً بہت سے لوگ روپیہ چاہتے ہیں اور دولت کمانے کے اکثر طریقے کسی نہ کسی گروہ کا تعاون چاہتے ہیں اور متعلقہ گروہ کا انحصار امیر ہونے کے مخصوص طریقے پر ہوگا۔ ایک ہی صنعت کے دو مختلف کارخانے اکثر معاملات میں ایک دوسرے کے رقیب ہوتے ہیں لیکن سیکورٹی ٹیکسوں کے بارے میں وہ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں ۔ بلا شبہ روپیہ ہی ایک ایسی چیز نہیں جس کی خاطر لوگ سیاسی قسم کے گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں ؛مثلاً وہ مختلف مذہبی فرقوں ، برادریوں ،علمی سوسائٹیوں اور فری میسن گروہوں اور نہ معلوم کن کن جماعتوں میں بٹ جاتے ہیں ۔ انسانوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرنے والے محرکات متعدد ہیں ، مثلاً مقاصد کی ہم آہنگی ان میں سے ایک ہے، خیالات کی یکسانی دوسرا اور خونی رشتے تیسرا۔ راسچائلڈ (Rothachild) خاندان کے لوگوں نے خونی رشتے کی وجہ سے ایک دوسرے سے تعاون کیا۔ اُنہیں اس ہیئت ِاجتماعی کے لیے رسمی قوانین کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ ایک دوسرے پر اعتبار کرسکتے تھے۔ ان کی کامیابی کی ایک وجہ یہ تھی کہ یورپ کے ہر اہم تجارتی مرکز میں ایک راسچائلڈ موجود تھا۔ باہمی تعاون کی ایسی مثال جس کا مدار خیالات کی ہم آہنگی پر ہو، زمانۂ ما بعد جنگ میں کوئیکر(Quaker) جماعت کے انسانیت نواز کارنامے |