تحقیق و تنقید حافظ محمد زبیر اجتہاد یا الحاد ’اجتہاد‘ اور’ جہاد‘ عصر حاضر کی دو مظلوم اصطلاحیں ہیں ۔ معاصراسلامی معاشروں میں جس قدرذہنی انتشار و فکری بگاڑ بڑھ رہا ہے، اس کی بڑی وجہ متجددین کاتصورِ اجتہاد ہے جبکہ دوسری طرف جتنی بھی منہج و عمل کی کج روی ہے، وہ متشددین کے نظریہ’جہاد‘سے پھوٹتی ہے۔ ویسے تو دنیا بھر میں ہی آئے روز نت نئے عجوبے پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن برصغیر پاک وہند اور مصر کوعالم اسلام میں اس لحاظ سے خصوصی امتیاز حاصل رہا ہے کہ دین حنیف سے منحرف ہونے والے اکثر و بیشترگمراہ فرقوں کے سربراہان اور اسلامی اساسات و عقائد میں بگاڑ پیداکرنے والے متجددین کا تعلق زیادہ ترانہی قطعہ ہائے زمین سے رہا ہے۔خصوصاً برصغیر پاک وہند ابتدا سے ہی گمراہ فرقوں ،متجددین، مفکرین اورنام نہاد مجتہدین کے لحاظ سے بہت زرخیز رہا ہے۔ہند وپاک میں اس وقت اس قدرکثیر تعداد میں نام نہاد مفکرین پائے جاتے ہیں کہ اگر ان کی برآمد (export) کا کاروبار شروع کیا جائے، تو شایدعصر حاضر کا سب سے نفع بخش کاروبار یہی شمار ہو۔ زیر نظر مضمون میں ہم ایسے مفکرین کے تصور’اجتہاد‘ کاایک تجزیاتی مطالعہ پیش کریں گے۔ان شاء اللہ ! پاکستان کی ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ ایک حکومتی ادارہ ہے اور آئین پاکستان کے مطابق اس کا کام پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو قانون سازی کے لیے ایسی سفارشات پیش کرنا ہے، جن کی روشنی میں عوام پاکستان دین اسلام کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں ۔اس کونسل کی پہلی بنیاد ۱۹۶۲ء کے آئین کے آرٹیکل ۱۹۹ کے تحت رکھی گئی تھی۔اُمت ِمسلمہ میں پیدا شدہ فکری انحراف کوہوادینے کے لیے حال ہی میں ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ سے منسلک سرکاری و غیر سرکاری متجددین نے’اجتہاد‘ کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ جاری کیا ہے۔ اس رسالے کے تاحال |