تین شمارے شائع ہو چکے ہیں جن میں فکر ِاسلامی کے منحرفین، فقہ اسلامی کے متجددین اور ’پڑھے کم، لکھے زیادہ‘دانشوران نمایاں ہیں ۔ علاوہ ازیں شریعت سے ناواقف ان معاصر مجتہدین کے جمالیاتی ذوق کی تسکین کے لیے ننگے سرو نیم عریاں بدن کے ساتھ خواتین کی تصاویر بھی جا بجا رسالہ اجتہاد میں موجود ہیں ۔ ممکن ہے کہ ان کی نظر میں کم فہم مولویوں کو ابھی تک یہ بات سمجھ نہ آ رہی ہو کہ ’اجتہاد‘ کے موضوع کاعورتوں کی ننگی تصاویر چھاپنے سے کیا تعلق ہے، لیکن ہمیں اُمید ہے کہ مولویوں کا منہ بند کروانے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کے محققین سہ ماہی ’اجتہاد‘ کے آزادیٔ نسواں کے کسی شمارے میں اس تعلق کے اثبات میں ضرورحکمت کے موتی بکھیریں گے۔ یہ عورت ذات بھی عجب شے ہے۔زندگی کے ہر شعبے کی رونق اپنے بغیر ادھوری سمجھتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے، اب کے تو یہ عورتیں جمالیاتی حس کی بیداری کو ہمارے ان مجتہدین سے اجتہاد کی بنیادی شرائط و اہلیت میں شامل کروا کے ہی دم لیں گی۔ خیر اس موضوع پر تبصرے کے لیے ابھی ہم سہ ماہی ’اجتہاد‘کے مزیدشماروں کا انتظار کرتے ہیں ۔اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ۔سہ ماہی ’اجتہاد‘کے پہلے شمارے کا موضوع ’اقبال اور اجتہاد ‘، دوسرے کا ’اسلام اور مغرب‘ اور تیسرے کا ’جدید علم الکلام ‘ تھا۔ پرویز مشرف کی تشکیل کردہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اوررسالہ’اجتہاد‘ کے مدیر مسؤل جناب ڈاکٹر خالد مسعود اس رسالے کے اجرا کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’رسالہ ’اجتہاد‘ کا مقصد اجتہاد پیش کرنا نہیں بلکہ اسلامی دنیا میں جاری فکری عمل کا جائزہ پیش کر کے دعوتِ فکر و عمل دینا ہے۔‘‘ (سہ ماہی ’اجتہاد‘، جون۲۰۰۷ء، ص۲) ڈاکٹرخالد مسعود کی اس بات پر ہم دو پہلوؤں سے گفتگو کریں گے۔ پہلی بات جس کا تذکرہ خالدمسعود صاحب نے کیا ہے کہ’’رسالہ اجتہاد کا مقصد اجتہاد پیش کرنا نہیں ہے۔‘‘ تو اس رسالہ اجتہاد کودیکھنے کے بعد یہ دعویٰ محل نظرہے۔مسعود صاحب کے اس دعوے کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو خود کو شادی کے لیے نااہل بتاتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس نے چار شادیاں رچا رکھی ہوں اور لوگوں کو بے وقوف بناتے ہوئے زبان سے ہر کسی کو یہی باور کراتا ہے کہ میں ’’ساری زندگی شادی نہیں کروں گا۔‘‘ رسالہ اجتہاد کے ہر دوسرے مقالے میں کوئی |