1. اس کی بنیاد نفرت ہوتی ہے یعنی قوم پرستی اپنی قوم کے علاوہ دوسروں کو اپنا حریف سمجھنے کا تقاضا کرتی ہے۔ 2. خیر وشر کو قومی پیمانوں پر طے کیا جاتا ہے، یعنی خیر اسی شے کو سمجھتا ہے جو ایک مخصوص جغرافیے میں رہنے والے افراد کے لئے بہتر ہو جیسا کہ موجودہ جہادِ افغانستان کے وقت ہماری حکومت نے ’سب سے پہلے پاکستان‘ کے نعرے میں کیا۔ 3. قوم ہمیشہ اپنے لئے جیتی ہے، اس کا مطمع نظر مادی ترقی اور حصولِ طاقت کے ذریعے صرف ایک مخصوص علاقے کے لوگوں کا معیارِ زندگی بلند کرنا ہوتا ہے، اسی معنی میں قومی ریاست سرمایہ دارانہ ریاست ہوتی ہے جس کا مقصد افراد کی آزادی یعنی سرمائے میں لامتناہی اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ خیال رہے کہ قوم پرستی سرمایہ داری کی مختلف تعبیرات میں سے ایک تعبیر ہی ہے۔ 4. قوم کے پاس مادی ترقی و خوش حالی کے علاوہ نوعِ انسانی کی فلاح و ہدایت کا کوئی دوسرا لائحۂ عمل نہیں ہوتا۔ سرمائے کی بڑھوتری ہی وہ واحد خیر ہے جسے قوم خود بھی اپناتی ہے اور دوسروں کو بھی اس کی طرف دعوت دیتی ہے۔ 5. قومیت کبھی جغرافیائی حدود پار نہیں کرسکتی یعنی قوم پرستانہ نظریے کے لئے کسی دوسرے علاقے کے رہنے والے لوگوں کو اپنی شناخت میں سمو لینے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ 6. اسی لئے قومی ریاست ہمیشہ ایک استعماری ریاست ہوتی ہے جس کا مقصد دوسروں کو مغلوب کرنا ہوتا ہے یعنی ایک قوم پرست شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی قوم باقی سب قوموں پر غالب آجائے اور اُنہیں محکوم بنا کر رکھے، لہٰذاہر وہ کام ’خیر‘ کہلاتا ہے جو قوم کے غلبے کاباعث بنے۔ قومیت کا یہ تشخص اور اس کا استحکام و پھیلاؤ اُمت کے اس بنیادی تصور ہی کے خلاف ہے جہاں جغرافیائی حدود بے معنی ہیں اور جس کے مطابق اسے اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے جینا ہے جیسا کہ ارشاد ہوا:﴿کُنْتُمْ خَیْرٌ أمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾ (آلِ عمران: ۱۱۰) ’’ تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے۔‘‘ |