Maktaba Wahhabi

65 - 127
یعنی اُمت ِمسلمہ کا مقصد بنی نوعِ آدم کی اصلاح ہے ۔ اس تصورِ ملت میں صرف دو ہی گروہ ہیں ، ایک امت ِاجابت اور دوسری اُمت ِ دعوت، گویا یہاں اُمت ِمسلمہ کا تعلق ملت ِکفر کے ساتھ نفرت کے اُصول پر نہیں بلکہ دعوت و اصلاح کے اُصول پر استوار ہے اور اگر کسی وجہ سے ملت ِکفر کے ساتھ لڑائی و دشمنی کا معاملہ ہے بھی تو اس لئے نہیں کہ دنیا کے مال و متاع پر قبضہ کرنے کے نتیجے میں وہ ہم سے آگے نکل گئے ہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ وہ حق کی اس دعوت کے پھیلاؤ میں مزاحمت اور دنیا میں فتنہ کا باعث بن رہے ہیں جو انسانوں کے خالق نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے۔ تصورِ قومیت اور اُمت کبھی ایک ساتھ پنپ نہیں سکتے، کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ، اوّل الذکر کی بنیاد نفرت جبکہ مؤخر الذکر کی محبت پر ہے۔ اسلامی ریاست استعماری نہیں بلکہ جہادی ہوتی ہے جہاں ریاست کی توسیع کا مقصد دوسروں کو محکوم بنانا نہیں بلکہ دعوت و تبلیغ اسلام کے مواقع پیدا کرکے دوسروں کو اُمت ِمسلمہ میں شریک کرنا ہوتا ہے اور اس تسخیر قلوب کے مقصد کے لئے طاقت سے بڑھ کر کردار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ چنانچہ اسلامی خلافتیں ہمیشہ جہادی رہی ہیں یہاں تک کہ خلافت ِعثمانیہ و مغلیہ بھی جہادی ریاستیں ہی تھیں جن میں پھیلاؤ آتا رہا، مثلاً خلافت ِعثمانیہ عثمان خاں کے دور ۱۲۸۸ء میں صرف ساڑھے سات ہزار مربع میل سے شروع ہوکر محمدفاتح کے دور ۱۴۸۱ء تک ایک لاکھ مربع میل سے بھی زیادہ ہوگئی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ آخر دور میں ہم نے ریاست کی توسیع کو اسلام میں اصلاح فرد اور تعمیر معاشرت کے کام سے کاٹ دیا تھا اور یہی ہمارے زوال کی اصل وجہ تھی، کیونکہ اس کی وجہ سے دائرۂ اسلام میں شامل ہونے والے غیر مسلمین کی تعداد کم سے کم تر ہوتی چلی گئی جس سے اسلامی شخصیت و معاشرت غیر مانوس ہوگئے اور نتیجتاً ہماری ریاست افراد کو اجنبی اور جبر لگنے لگی جس کے زوال پر وہ خوشی محسوس کرتے۔ دوم : نمائندگی عوام بمقابلہ نیابت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم موجودہ جمہوری ریاستوں میں عوام کو رعایا کے بجائے citizens یعنی اصل حاکم (autonomous) مانا جاتا ہے اور ریاست و حکومت محض عوام کی سوچ اور خوا ہشات کو پورا
Flag Counter