جو در حقیقت قرآن و سنت کا علم رکھتے ہیں ۔ چنانچہ نمائندگی عوام کا تصور نہ تو کبھی کسی اسلامی ریاست بشمول خلافت ِراشد ہ میں ہی ملتا ہے اور نہ ہی اسلامی تعلیمات میں اس کا کوئی ذکر ہے۔ دوسرے لفظوں میں عوام الناس کی حاکمیت اور نمائندگی کے تصورات بدعاتِ سیئہ ہیں ۔ سوم :سوشل سائنسز بمقابلہ علومِ شرعیہ کی بالادستی اسلامی ریاست کے قیام کا خواب اس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک اسلامی علوم (یعنی علم کتاب وسنت، فقہ اور زہد وتقویٰ) کا معاشرتی غلبہ قائم نہ ہو جائے، کیونکہ نظامِ علم ہی ریاستی حکمت ِعملی اور اسے نافذ کرنے والے افراد مہیا کرتا ہے ۔ ہر نظامِ علمیت معاشرے میں تین بنیادی مقاصد انجام دیتا ہے : 1. غالب علمی و ثقافتی ورثے کو اس طرح اگلی نسل تک منتقل کرنا کہ اسے حاصل کئے بغیر معاشرے میں کامیاب زندگی کا تصور نا ممکن ہو جائے۔ 2. افراد کو چندمخصوص مقاصد ِزندگی اور معاشرتی اقدار بطور مقصد ِحیات قبول کرنے پر تیار کرکے معاشرے میں فکری ہم آہنگی پیدا کرنا۔ 3. اَفراد کے تعلقات کے نتیجے میں قائم شدہ معاشرے اور ریاست کو پیش آمدہ مسائل حل کرنے کے لئے حکمت ِعملی اور اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے اس علمیت کے حامل با صلاحیت افراد فراہم کرنا۔ چنانچہ کوئی معاشرہ و ریاست تبھی اسلامی بن سکتی ہے کہ جب اس کی غالب علمیت سائنس (بشمول نیچرل و سوشل سائنسز) نہیں بلکہ اسلامی علمیت ہو، کیونکہ جب تک اسلامی علمیت غالب نہیں ہوگی، معاشرتی فیصلوں اور ریاستی حکمت ِعملی کی اسلامی بنیاد فراہم نہیں کی جاسکتی۔ اسلامی علمیت در حقیقت کتاب وسنت، عقیدہ، فقہ اور زہد و تقویٰ کی صورت میں متشکل ہوکر سامنے آتی ہے۔ مثلاً فقہ اسلامی کا مقصد قرآن و سنت میں وارد شدہ نصوص سے وہ مسائل اخذ کرنا ہے جن کی روشنی میں یہ طے کیا جا سکے کہ اَن گنت انسانی اعمال و افعال سے رضاے الٰہی کے حصول کا درست طریقہ کیا ہے۔ نیز یہ معلوم کیا جا سکے کہ افراد کے تعلقات کو کن ضروری بندشوں کا پا بند بنا کر معاشرے کو احکاماتِ الٰہی کے تابع کیا جاسکتا ہے ۔ |