Maktaba Wahhabi

58 - 127
دھونس لگانے والے تو رسالہ’ اجتہاد‘ کے نام نہاد مجتہدین ہیں جو بغیر دلیل کے معتدل فکر اور راسخ العلم علما کو متشدد،متعصب،کم نظر وغیرہ جیسے سابقوں اور لاحقوں سے نوازتے رہتے ہیں ۔ راشد صاحب کو اصل بے چینی یہ ہے کہ ان کے اس قدر چیخنے و چلانے کے باوجود بھی لوگ قدیم فقہی اجتہادی آرا پر اعتماد کیوں کرتے ہیں ؟ ہمارا خیال یہ ہے کہ راشد صاحب کی اس بے چینی کا علاج سوائے نیند کی گولیوں کے اور کچھ نہیں ہے،کیونکہ جو قوم چودہ سو سال تک ائمہ سلف سے اپنا رشتہ جوڑنے پر مصر رہی ہو، وہ جناب راشد شاز کے عظیم مشوروں کی بدولت اپنے صالح آباؤو اجداد اور ان کی علمی میراث سے قطع تعلقی پرکیسے آمادہ ہو جائے گی؟ لوگ صدیوں سے قرآن وسنت کی تفہیم میں ائمہ سلف کو اہمیت دیتے رہے ہیں اور قیامت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا، اِلا یہ کہ سابقہ متجددین کے زندگی بھر کے حاصل کی طرح کوئی چالیس،پچاس آدمی راشد شاز صاحب کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ان کے فکری جہاد کی تحریک میں شامل ہو کر ’ثوا ب دارین‘ حاصل کریں ۔ جناب جاوید احمد غامدی کا تصورِ اجتہاد جناب جاوید احمد غامدی بھی پرویز مشرف کی روشن خیال اسلامی نظریاتی کونسل کے کلیدی رکن اور رسالہ ’اجتہاد‘ کی مجلس ادارت کے ممبرہیں ۔کونسل کے ممبران کے بارے میں جناب جاوید احمد غامدی کے رکن بننے سے قبل تبصرہ یہ تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے مجتہدین اجتہاد کے اہل نہیں ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں : ’’اسلام کے بارے میں جو شکوک و شبہات یا سوالات اس وقت دنیا میں پیدا ہو رہے ہیں ، ان میں سے بیشتر کا تعلق فقہ و شریعت ہی سے ہے۔ جہاد و قتال کی حدود و شرائط ، نظم سیاست اور اس میں شوریٰ کی نوعیت، نظم معیشت اور سودی نظام کے مسائل ، خواتین کے حوالے سے پردہ ، تعددِ ازواج اور طلاق وغیرہ کے احکام، شہادت اور دیت کے بارے میں قوانین، قتل، زنا، چوری اور ارتدادجیسے جرائم کی سزائیں ، موسیقی، مصوری اور دیگر فنونِ لطیفہ کی شرعی حیثیت اور اس نوعیت کے متعدد موضوعات ہیں ، جن کے بارے میں سوالات زبان زد عام ہیں ۔ ہمارے علماء کے پاس چونکہ ان سوالا ت کے تسلی بخش جواب نہیں ہیں ، اس لیے یہ تصور قائم کیا جارہا ہے کہ اسلامی شریعت عہد ِرفتہ کی یادگار ہے۔۔۔اس تناظر میں اسلامی نظریاتی کونسل سے
Flag Counter