اس کے لیے واقعتا ڈاکٹر صاحب جیسے ججوں اور وکلا ہی کی جماعت زیادہ مناسب رہے گی۔ جناب راشد شاز کا نظریۂ اجتہاد ویسے تو رسالہ اجتہاد کے تقریباً تمام دانشوروں کی شان ہی نرالی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر دانش ور کچھ ایسے اوصاف و نظریات کا حامل و مبلغ ہوتا ہے جو دوسرے کسی دانش ور میں موجود نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال قرآن کے مفصل احکامات میں اجتہاد (ردّ و بدل) کے داعی و مبلغ ہیں تو پروفیسر الطاف صاحب قرآن کے مجمل احکامات کی تفسیر میں مروی احادیث کا انکار کرتے ہوئے اجتہاد کرنے کے پرجوش حامی ہیں ۔ راشد شاذصاحب کا خصوصی ذوق و شوق یہ ہے کہ تمام قدیم فقہی مذاہب و آرا کو آنِ واحد میں یکسر مسترد کرتے ہوئے نئے سرے سے قرآن کی شرح و تفسیر کی جائے اور جدید حالات اور تہذیب و تمدن کے مطابق سارے دین کی ایک ایسی تشکیل نو کی جائے، جس میں کسی سابقہ عالم دین کا تذکرہ یاحوالہ تو کیا نام تک بھی موجود نہ ہو۔جناب راشد شاز صاحب لکھتے ہیں : ’’جدید مصلحین کو ابتدا ہی سے اس بات کا التزام کرنا ہو گا کہ وہ تاریخی اسلام اور نظری اسلام میں نہ صرف یہ کہ امتیاز کریں بلکہ مطالعہ قرآنی میں ایک ایسے منہج کی داغ بیل ڈالیں جس کے ذریعے انسانی تعبیرات اور التباسات کے پردوں کا چاک کیا جانا ممکن ہو۔ اور یہ جب ہی ممکن ہے جب ہر مسئلہ کو از سر نو تحقیق و تجربہ کا موضوع بنایا جائے اور ہر مسئلہ پر قرآنی دائرۂ فکر میں از سر نو گفتگو کا آغاز ہو۔یقین جانئے، اگر ہم قرآنِ مجید کو حَکَم مانتے ہوئے اپنے تہذیبی اور علمی ورثے کا ناقدانہ جائزہ لینے کی جرات پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ہم خود کو فکری طور پر نزولِ وحی کے ان ایام میں پائیں گے جب وحی کی ضیا پاشیاں ہمارے قلب و نظر کو منور اور ہمارے ملی وجود کو طمانیت سے سرشار رکھتی تھیں ۔‘‘(سہ ماہی ’اجتہاد‘:ستمبر ۲۰۰۸ء،ص۷۴) جناب راشد شاذ اپنے جیسے نام نہاد مصلحین کو بڑا اچھا مشورہ فراہم کر رہے ہیں ، کیونکہ ان لوگوں نے بھی تو دنیا میں کچھ کرنا ہے لیکن سوال تویہ ہے کہ جتنا عرصہ ان مصلحین کو دین کی نئی تعبیر یا تشکیل میں لگے گا تو اس وقت تک یا تو یہ مصلحین اس دنیا سے رخصت ہو کر قدما میں شامل ہو چکے ہوں گے یا پھر دنیا بہت ترقی کر چکی ہو گی لہٰذا آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ان مفکرین کی نئی تعبیر وتشکیل قدیم بن جائے گی اور اگر آئندہ آنے والی نسل جناب راشد شاز |