Maktaba Wahhabi

55 - 127
کی ترتیب و تدوین کے لیے ماشاء اللہ ڈاکٹر صاحب موصوف مناسب ترین آدمی ہیں ، علماء کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے؟زیادہ سے زیادہ ڈاکٹر صاحب کویہ اجتہاد(کوشش) کرنا ہو گا کہ دل سے پوچھنا پڑے گا کہ تجھے شراب پینا پسند ہے یا نہ پینا؟ نفس سے یہ سوال کرنا ہو گا کہ اسے نماز پڑھنا پسند ہے یا نہ پڑھنا؟بلکہ دل و دماغ سے یہ بھی رائے لی جا سکتی ہے کہ اسے کسی خدا کے وجود کوماننا پسند ہے یا نہ ماننا؟ باقی رہے اس پسند و ناپسند کے دلائل ، تو عقل خدا نے کس لیے دی ہے؟آخر وہ کس کام آئے گی؟آخر اسی عقل ہی نے تو بعضوں کو سمجھایا کہ اتنی پی لینے میں کوئی حرج نہیں ہے جس سے دماغ خراب نہ ہو۔ہمیں اُمید ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس نئی فقہ کی تدوین کے ذریعے نفس پرستوں کے ایک ایسے فرقے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں ، جن کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اَرَاَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوَاہُ اَفَأنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا﴾ (الفرقان:۴۳) ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے کہ جس نے اپنی خواہشِ نفس (پسند) کو اپنا معبود بنا لیا ہے(یعنی ہر مسئلے میں اپنی پسند کو ترجیح دیتاہے) کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کی ذمہ داری اُٹھائیں گے؟۔‘‘ جناب ڈاکٹر صاحب نے ایک اور نیا شوشہ یہ بھی چھوڑا ہے کہ اجتہاد علما کی بجائے وکلا کو کرنا چاہیے۔ چونکہ علما جدید قانون سے واقف نہیں ہیں ، لہٰذا وکلا کو اسلامی فقہ اور اُصولِ فقہ سے متعلق ایک دو اضافی مضامین پڑھا کر مجتہد کی سند جاری کر دینی چاہیے۔ رسالہ ’اجتہاد‘ میں ہے: ’’جناب جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا کہ اجتہاد کا تعلق بہت حد تک قانون کی تعلیم سے ہے۔ پاکستان میں بہت شروع سے اس بات پر زور دیاگیا تھا کہ ملک کے قانونی تعلیم کے اداروں میں ’جیورس پروڈنس‘ یا فلسفہ قانون کی تعلیم دی جائے اور جدید قانون کے ساتھ اسلامی قانون کا تقابلی مطالعہ بھی تعلیم میں شامل ہو۔اس طرح جو قانون کے اداروں سے فارغ التحصیل قانون دان ہوں ، وہ علما کی جگہ لے سکیں گے کیونکہ وہ جدید قانون کے ساتھ فقہ سے بھی شناسا ہوں گے، اس طرح قانونی تعلیم میں اصلاح کا آغاز ہو گا۔‘‘ (سہ ماہی ’اجتہاد‘: جون ۲۰۰۷ء، ص۳) ویسے ڈاکٹر جاوید اقبال جس قسم کا اجتہاد کرنا چاہتے ہیں (یعنی ذاتی پسند کے مسئلے نکالنا)
Flag Counter