Maktaba Wahhabi

54 - 127
ڈاکٹر اعظمی کے بقول ڈاکٹر اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی نظریہ کے حامل ہیں ، گویا اُنہوں نے اپنی کتاب’تشکیلِ جدید‘ میں یہی بیان کیا ہے۔الطاف احمد اعظمی صاحب اس نکتہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’گزشتہ صفحات میں ہم نے اسلامی قانون کے مآخذ کے بارے میں اقبال کے خیالات کا جو تنقیدی جائزہ لیا ہے، اس سے بالکل واضح ہو گیا کہ وہ ان مآخذکے بارے میں ایک واضح تصور رکھتے تھے۔لیکن اسلامی قانون کے اولین ماخذ یعنی قرآنِ مجید کے متعلق ان کے خیالات بہت واضح نہیں تھے۔مثلاً ان کا خیال ہے کہ قرآن مجید کے بعض احکام مقامی نوعیت کے ہیں اور ان کا اطلاق بعد کے زمانوں میں نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں اُنہوں نے جرائم کی ان سزاؤں کا ذکر کیا ہے جو قرآنِ مجید میں بیان ہوئی ہیں ۔اُنہوں نے لکھا ہے کہ یہ سزائیں عربوں کے مزاج اور ان کے مخصوص تمدنی حالات کے تحت مقرر کی گئی تھیں ، اس لیے مستقبل کی مسلم اقوام پر ان کو جوں کا توں نافذ کرنا صحیح نہ ہوگا۔‘‘(سہ ماہی ’اجتہاد‘: جون ۲۰۰۷ء، ص ۳۵) اللہ ہمارے ان معاصر دانشوروں کو ہدایت دے، یہ اس مسئلے میں اجتہاد کیوں نہیں کرتے کہ یہ سب اجتہاد کی تعریف یا اس کے اطلاق وانطباق پر ہی کم ازکم متفق ہو جائیں ۔ الطاف صاحب، ڈاکٹر اقبال مرحوم کے نقطہ نظر کا ردّ تو کررہے ہیں ، لیکن ان کے پاس نہ تو اقبال مرحوم کے تصورِ اجتہاد کی تردید میں کوئی دلیل ہے اور نہ ہی اپنے مزعومہ نظریۂ اجتہاد کی تائید میں کوئی استدلال۔بھلا جب بات دلیل کے بغیر ہی کرنی ہو توغلام احمد پرویز کی طرح کوئی سر پھرا یہ تصورِ اجتہاد بھی پیش کر سکتا ہے کہ قرآن کے سارے ہی احکامات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی تہذیب و تمدن کے ساتھ خاص تھے۔یعنی نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری! ڈاکٹر جاوید اقبال نے یہ بھی کہاہے کہ ایک ایسی نئی فقہ بنانی چاہیے کہ جس میں ہر کوئی اپنی پسند کے مطابق مسئلے کا حل نکالے۔ جب اپنی ذاتی پسند ہی معیارِ اجتہاد ٹھہرا تو ایسی نئی فقہ٭
Flag Counter