کی کتابوں میں متذکرہ بالا دونوں روایتیں اجماع اور اجتہاد کی دلیل کے طور پر اکثر پیش کی جاتی ہیں ۔ اس روایت کا حاصل مفہوم یہ ہے کہ جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا جا رہا تھا تو اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کایہ سوال کہ’’ تم کیسے فیصلہ کرو گے ؟‘‘ صرف عقیدے یا اخلاقیات کے جھگڑے کے بارے میں نہ تھا بلکہ ہر قسم کے اختلاف کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا کہ اس کا فیصلہ کیسے کرو گے؟ اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ حکمران یا گورنرکی طرف اکثر وبیشترانسانوں کے باہمی معاملات Public Lawsسے متعلقہ تنازعات کے حل کے لیے ہی لوگ رجوع کرتے ہیں ۔ الطاف صاحب نے جن معروف علماے کرام کو ’کم نظر‘ ہونے کا طعنہ دیا ہے اس پر ہمیں کوئی گلہ نہیں ہے، کیونکہ صائب فکر علما کتاب وسنت سے آگے بڑھ کر تیز نظر نہیں ہوتے،کیونکہ شریعت کی پابندی ہی سلامتی کی ضامن ہے اور بدعت واضافہ گمراہی! متجددین کو یہ ’تیز نظر‘ مبارک ہو۔ ایسی تیز نظری اگر واقعتاً کوئی اعلیٰ صفت ہوتی تو ’اُلو‘ میں یہ صفت نہ پائی جاتی،جو اہل علم ودانش کے ہاں کم از کم قابل ستائش پرندہ نہیں ہے۔ جناب ڈاکٹر جاوید اقبال کا نظریۂ اجتہاد الطاف صاحب سے زیادہ بے باکانہ نکتہ نظرڈاکٹر جاوید اقبال کا ہے کہ مجمل توکیا قرآن کے مفصل احکامات میں بھی تغیر وتبدل ہو سکتاہے ۔ وہ فرماتے ہیں : ’’قرآنِ پاک میں اللہ پاک نے عدل کے ساتھ احسان کی بھی ترغیب دے رکھی ہے، لہٰذا وہاں احسان کے معنی برابری کے لیے گئے۔یعنی بعض حالات میں قرآن پاک میں مقرر کیے گئے وراثت کے حصص میں ردّو بدل ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر میں چاہتا ہوں کہ میری جائیداد ساری کی ساری میری بیٹی کو ملے تو میں کیوں ایسا نہیں کر سکتا۔ بیٹی یا بہن سارا گھر چلاتی ہے لیکن جائیداد کی تقسیم کے وقت اسے آدھا حصہ ملتا ہے۔۔۔میرا موقف یہ ہے کہ ایک نئی فقہ پارلیمنٹ کے ذریعے بنائی جائے جس میں امامیہ ، حنفی ، مالکی وغیرہ سب مکاتب ِفکر شامل ہوں جس میں ہر کوئی اپنی پسند کے مطابق اپنے مسئلے کاحل نکال لے۔‘‘ (سہ ماہی ’اجتہاد‘: جون ۲۰۰۷ء، ص ۸۵) |