وعبادات سے متعلق احادیث تو قابل قبول ہیں ، لیکن ان کے علاوہ معاشیات، سیاسیات، معاشرت، جہاد و قتال ، حدود و جنایات، قضا، طعام و قیام، لباس وزینت اوردیگر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مروی احادیث قرآن کی ایسی تشریح تھیں جو صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے لیے واجب العمل تھی۔یہ نکتہ نظر پبلک لاء کی حدتک ہوبہو غلام احمد پرویز کا ہے۔ الطاف صاحب کا یہ نظریہ ان کی ایک ذاتی رائے ہے جس کی کوئی شرعی دلیل تاحال ان کو نہ مل سکی،بلکہ دلیل تو ان کے اس نظریے کے خلاف قائم ہے جیسا کہ مذکورہ بالاحدیث پروفیسر صاحب کے نکتہ نظر کاپرزورردّکر رہی ہے۔ اس طرح ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو فرمایا: ’’فقال کیف تقضي فقال أقضي بما في کتاب اﷲ قال فإن لم یکن في کتاب اﷲ قال فبسنَّۃ رسول اﷲ۔ قال فإن لم یکن في سنۃ رسول اﷲ۔ قال اجتھد رأیي‘‘ (سنن الترمذی، کتاب الأحکام عن رسول اﷲ ، باب ما جاء في القاضي کیف تقضي) ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم کیسے فیصلہ کرو گے تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا : جو کتاب اللہ میں ہے، میں اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اگروہ (مسئلہ صریحاًو تفصیلاً) کتاب اللہ میں نہ ہو توحضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق فیصلہ کروں گا(کیونکہ اس میں صراحت اور تفصیل قرآن کی نسبت زیادہ ہے)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر وہ(مسئلہ صریحاً و تفصیلاً) سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی نہ ہو۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں اپنی رائے (بنانے) میں اجتہاد (یعنی قرآن و سنت میں پوری کوشش و طاقت صرف کرکے استنباط) کروں گا۔‘‘ یہ روایت ثبوت کے اعتبار سے اگرچہ مختلف فیہ ہے۔جلیل القدر محدثین تو فن حدیث کی رو سے اسے ضعیف قرار دیتے ہیں ،لیکن مسلم قرونِ وسطیٰ کے بہت سے اُصولی علما اسے معرضِ استدلال میں پیش کرتے ہیں ۔معتدل مزاج متاخرین نے یوں تطبیق دی ہے کہ(( لا تجتمع أمتي علی الضلالۃ)) (اجماع کی دلیل والی روایت) کی طرح اس کا متن تو معیاری نہیں ،لیکن کتاب وسنت کے بعد درجہ اجتہاد کی حد تک اس کامفہوم درست ہے،اسی لیے اُصول |