Maktaba Wahhabi

51 - 127
ملاحظہ فرمائیے کہ اس آیت ِمبارکہ کے دوسرے جزء ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ﴾میں شيئنکرہ وارد ہو اہے اور لغت ِعرب کایہ معروف قاعدہ ہے کہ جب نفی، نہی یا کسی استفہام وشرط کے سیاق میں نکرہ ہو تو وہ اپنے عموم میں نص بن جاتا ہے یعنی پھر اس سے عموم بیان کرنا متکلم کا منشا ہوتا ہے۔ (الوجیز: ص ۳۰۸) لہٰذا آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی قسم کے مسئلے میں بھی اگر شرعی حکم کے حوالے سے بحث ہو جائے تو اس مسئلے کا شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے قرآن وسنت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ اَب ذرا اعظمی صاحب کے نظریے کا جائزہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی روشنی میں لیجئے: (( یوشک الرجل متکئًا علی أریکتہ یحدث بحدیث من حدیثي فیقول بیننا وبینکم کتاب اﷲ ما وجدنا فیہ من حلال استحللناہ وما وجدنا فیہ من حرام حرّمناہ وإن ما حرم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مثل ما حرم اﷲ)) (سنن ابن ماجہ، کتاب المقدمہ، باب تعظیم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) ’’(وہ زمانہ)قریب ہے کہ ایک شخص تکیہ لگائے بیٹھا ہوگا اور اس کے پاس میری احادیث میں سے کوئی حدیث بیان کی جائے گی تو وہ شخص کہے گا: ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب موجود ہے پس جس کو اللہ کی کتاب نے حلال ٹھہرا دیا تو ہم بھی اس کو حلال سمجھیں گے اور جس کو ہم نے اللہ کی کتاب میں حرام پایا تو ہم بھی اسے حرام قرار دیں گے(اور یہی ہمارے لیے کافی ہے)۔ (خبردار!) بے شک جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام ٹھہرایا ہے، وہ اسی طرح حرام ہے جیسے کسی شے کو اللہ نے حرام قرار دیا ہو۔ ‘‘ اس حدیث ِمبارکہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت میں بیان شدہ کسی بھی حلال یا حرام شے کی حلت یا حرمت کے منکر کو ایک فتنہ پرور شخص قرار دیاہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی اس اعتبار سے سچ ثابت ہوئی ہے کہ تاریخ اسلام کے مختلف ادوار میں نام نہاد مفکرین اور عقلیت پسند احادیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی نہ کسی انداز سے انکار کرتے ہی رہے ہیں ۔ بعض نے اپنے نظریات کے منافی سنن واحادیث کو نظائر تاریخی قرار دے کر ان کی شرعی حیثیت کا اِنکار کردیا جیسا کہ غلام احمد پرویز کا موقف تھا جبکہ بعض نے اپنے موقف کے خلاف حدیث کے انکار کے لیے حیلوں بہانوں سے کام لیا جیسا کہ الطاف اعظمی کا خیال ہے کہ اخلاق
Flag Counter