بعد کے خلفا یا مجتہدین کی فقہ بھی ایک نظیرکی حیثیت کی حامل ہے۔یہ غلام احمد پرویز کے نظریۂ ’مرکز ملت‘ ہی کی بازگشت یا اس کاجدید ایڈیشن ہے۔اسی بنا پرپروفیسر الطاف صاحب کا کہنا یہ بھی ہے کہ ان کی قبیل کے مجتہدین کو قرآن کی مجمل نصوص کی تشریحات آج کے احوال وظروف کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے کرنی چاہئیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ علماے حق کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن اور احادیث چاہے ان کا تعلق قرآن کے کسی مجمل حکم کی شرح سے ہو یا وہ قرآن کے علاوہ کسی نئے حکم کا ماخذ ہوں ، ہر دوصورتوں میں دائمی اور ناقابل تغیر حیثیت کی حامل ہیں ۔ ان احادیث کا مقام اُمتی مجتہدین وفقہا کی آرا کی طرح محض ایک نظیر کا نہیں ہے۔کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مقام ومرتبہ متعین کرنا پروفیسر الطاف صاحب کا کام نہیں ہے بلکہ یا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ہے چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوْا اﷲَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ﴾ (النساء: ۵۹) ’’اسے اہل ایمان!اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروا ور اولی الامر کی بات مانو۔ پس اگر کسی بھی مسئلے میں تمہارا (اولی الامر سے)جھگڑا ہو جائے تو تم اس مسئلے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی قرآن و سنت) کی طرف لوٹا دو‘ اگر تم اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ اس قرآنی ہدایت میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تو مستقل ہے جب کہ اولی الامر کی اطاعت مشروط ہے،بلکہ اگر اُولی الامر کا باہمی یا کسی دوسرے کا ان سے اختلاف ونزاع ہو جائے تو اس کا حل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (کتاب وسنت) کی طرف رجوع کرنا ہی ہوگا۔ ان اختلافات کے بارے میں واضح رہے کہ یہ اختلافات نصوص کی تعبیر و تشریح اور ان کے اطلاقات سمیت جملہ انسانی معاملات میں ہو سکتے ہیں ۔ ان تمام کے بارے میں ربانی ہدایت یہی ہے کہ ان معاملات میں کتاب وسنت کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا اور اس وقت اُولی الامر کی عوام پر اتھارٹی ختم ہو جائے گی۔ |