Maktaba Wahhabi

48 - 127
قطب رحمۃ اللہ علیہ کی معالم في الطریق نے اہم کردار ادا کیا۔ عبد الباقی نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح ان متشدد جماعتوں میں تکفیر اور استحلال کے تصورات کو فروغ ملا۔‘‘ (سہ ماہی ’اجتہاد‘:ستمبر ۲۰۰۸ء،ص ۱۱۸) یعنی متجددین تو اُمت ِوسط ٹھہرے اور اسلامی تحریکیں متشددین قرار پائیں ۔ آج کل ہر کوئی جماعت اپنے آپ کو معتدل و متوازن فکر کا حامل قرار دینے کی دعویدار ہے، لیکن اصل مسئلہ تویہ ہے کہ اس کافیصلہ کیسے ہو گا کہ مصر کی ’وسطانیہ‘ تحریک کے رہنما شیخ محمد الغزالی، طارق بشری اور فہمی ہویدی وغیرہ تومعتدل جبکہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ ’انتہا پسند’مولوی‘ ہیں ؟ مولانامودودی رحمۃ اللہ علیہ یا سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ اس جرم کی پاداش میں انتہا پسند ٹھہرے کہ وہ صرف اللہ ہی کی حاکمیت کا نعرہ لگاتے ہیں یا وہ عورتوں کے لیے نقاب کو لازم قرار دیتے ہیں ، جس کی تردید کو خورشید ندیم صاحب نے اُمت ِوسط ہونے کا معیار ٹھہرا لیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر رسالہ اجتہاد کے ’مدیر مسؤل ‘ یا ’مہمان مدیر‘یا ’مجلس ادارت‘ راسخ فکر علماء پر مشتمل ہوتی اور اس رسالے میں عالم اسلام میں ہونے والے اجتہادات کو اگر پیش کیا جاتا تو اس رسالے کی شکل و صورت، ہیئت و ترکیب، ترتیب وتنظیم اور جمع و تدوین یکسر مختلف ہوتی۔ مثال کے طور پر مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’اسلام اور مغربیت کی کشمکش‘ میں جب طالبینِ حق مصر کی مختلف اسلامی تحریکوں ،علمی حلقوں اور مذہبی جماعتوں کے تاریخی پس منظر میں پیش کی جانے والی معتدل تحقیق کا مطالعہ کرتے ہیں تو موضوع ایک ہونے کے باوجود خورشد احمد ندیم اور علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین، نتائج اور اُسلوبِ تحریر میں زمین وآسمان کا فرق پاتے ہیں ۔ہمیں تو یہی نظر آتا ہے کہ کچھ نااہل و متعصب دانشور اجتہاد کے نام پر اکٹھے ہو گئے ہیں اور ساری دنیا میں اپنے جیسوں کو تلاش کر کے رسالہ اجتہاد کے ذریعے حکومتی خرچے پران کے کام کا تعارف کروانا چاہتے ہیں ۔ ذیل میں ہم رسالہ اجتہاد میں ’اجتہاد‘ کے نام سے پیش کیے جانے والے فکری انتشار پر کچھ روشنی ڈال رہے ہیں : جناب الطاف احمد اعظمی کا نظریۂ اجتہاد رسالہ ’اجتہاد‘ نے جامعہ ہمدرد، بھارت کے شعبہ علومِ اسلامیہ کے ڈین جناب الطاف احمد
Flag Counter