کیا ہے؛ اور اسے تصوف کی صفات میں بھی بیان کیا ہے؛اسے ان کی سند سے ابو حفص عمرالسہروردی نے صاحب ’’عوارف المعارف‘‘ نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک اعرابی نے یہ شعرپڑھے: قد لسعت حیۃ الھوی کبدی فلا طبیب لھا و لا راقي إلا الحبیب الذي شغفت بہ فعندہ رقیتي و تریاقي ’’میرے دل کو خواہشات کے سانپ نے ڈس لیا ہے۔اب اس کا نہ ہی کوئی طبیب ہے اور نہ ہی جھاڑپھونک کرنے والا۔سوائے میرے اس محبوب کے جس کے ساتھ میرا دل لگا ہوا ہے۔اسی کے پاس میری جھاڑ پھونک بھی ہے اور تریاق بھی ہے ۔‘‘ اور یہ کہ آپ یہ شعر سن کر ایسے وجد میں آگئے کہ آپ کے کندھے سے چادر گرگئی۔تومعاویہ نے ان سے کہا: ’’تمہارا یہ کھیل تماشہ کتنا خوب ہے۔انہوں نے کہا: اے معاویہ ٹھہر جاؤ! وہ انسان شریف نہیں ہوسکتا جو اپنے محبوب کا تذکرہ سننے پر وجد میں نہ آئے‘‘ یہ حدیث موضوع ہے۔ علوم حدیث پر دسترس رکھنے والے تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے ۔‘‘ سوال کی شکل میں وارد ہونے والی ایک روایت کی اسناد پر آپ نے جرح کی |