Maktaba Wahhabi

29 - 131
سکتا ہے۔ ساری فکر آج کے کام کو آج ہی مکمل کرنے کے اہتمام پر مجتمع ہو، اور آج کے کام کو آنے والے کل پر مؤخر کرنے والی سوچ کو ختم کیا جائے۔ اسی طرح ماضی میں پہنچنے والے کسی غم کو بھی سو چ او ر فکر سے دُور رکھا جائے۔ [چنانچہ کہا جاتا ہے:مَضٰی مَا مَضٰی … جو گزر چکا سو گزر چکا]اسی لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اندرونی بے چینی اور غم سے اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا مانگا کرتے تھے: ((أَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحَزنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْجُبُنِ وَالْبُخْلِ وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الرِّجَالِ۔)) [1] ’’اے اللہ! میں دل کی بے چینی یعنی دُکھ اور غم، لاچارگی اور سستی و کاہلی، بزدلی اور کنجوسی، قرض کے پریشان کن بوجھ اور لوگوں کے غالب آنے سے تیری پناہ کا طلب گار ہوں۔‘‘ چنانچہ غم ہمیشہ ماضی میں پیش آمدہ اُن اُمور کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے کہ جن کو واپس نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان گزشتہ اُمور کی تلافی ہو سکتی ہے۔ جب کہ اندرونی بے چینی اور دل کا اضطراب زمانہ مستقبل میں کسی خوف کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ بندہ اس خوف کو آج کے دن پر ہی محمول کر کے پریشان رہنا شروع ہو جاتا
Flag Counter