فِي الشِّرْکِ، وَہُوَ مَا کَانَ بَعْدَ أَنْ قَالَ لَہُ أَبُوْہُ:{لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَأَرْجُمَنَّکَ}،وَہُوَ غَیْرُ الْمَوْقِفِ الَّذِي خَاطَبَہُ فِیْہِ بِقَوْلِہِ:{یٰٓأَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لاَ یَسْمَعُ وَلاَ یُبْصِرُ} اَلآیَاتُ فِي سُوْرَۃِ مَرْیَمَ۔‘‘[1]
{أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِہَۃً}[2]میں استفہام [سوال] نقد اور توبیخ کے لیے ہے، اور ظاہر ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنے والد کے ساتھ مختلف مواقع پر ہونے والی گفتگو میں سے ایک ایسے موقع کی گفتگو کا ذکر کیا گیا ہے جس میں انہوں نے درشتی استعمال کی، اور یہ طرزِ عمل انہوں نے یقینا اسی وقت اختیار کیا ہو گا جب ان کے والد نے ان سے کہا تھا:{لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَأَرْجُمَنَّکَ}[3]اور شرک پر جمے رہنے کی ضد اور اصرار کا اظہار کیا۔
ابراہیم علیہ السلام کا یہ طرزِ عمل ان کے اس رویہ سے الگ ہے جس کا ذکر سورہ مریم کی آیات میں ہے، اور جس میں انہوں نے اپنے باپ سے کہا تھا:{یٰٓأَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لاَ یَسْمَعُ وَلاَ یُبْصِرُ[4]}[5]
شیخ ابن عاشور ؒنے یہ بھی تحریر کیا ہے:
’’وَمُبَاشِرَتُہُ إِیَّاہُ بِہٰذَا الْقَوْلِ الْغَلِیْظِ کَانَتْ فِي بَعْضِ مُجَادِلاَتِہٖ لأَبِیْہِ بَعْدَ أَنْ تَقَدَّمَ لَہٗ بِالدَّعْوَۃِ بِالرِّفْقِ، کَمَا حَکَی اللّٰہ ُ عَنْہُ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ:{یٰٓأَبَتِ إِنِّی قَدْ جَآئَ نِی مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَأْتِکَ فَاتَّبِعْنِیٓ أَہْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا}- إِلٰی قَوْلِہِ-:{سَلٰمٌ عَلَیْکَ سَأَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّيٓ إِنَّہُ کَانَ بِی حَفِیًّا}۔
|