Maktaba Wahhabi

72 - 132
کے ذمہ ہیں اور انہی میں سے:[انہیں دین کی دعوت دینا،نصیحت کرنا،نیکی کا حکم دینا،بدی سے روکنا اور ان کے لیے وہی پسند کرنا،جو اپنے لیے پسند کرے]شامل ہیں۔‘‘ [1] د:حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے اس[یعنی زمانے]کے ساتھ قسم کھائی ہے،کہ یقیناً انسان خسارے اور بربادی میں ہے﴿اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ﴾پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو خسارے سے مستثنیٰ قرار دیا،جو اپنے دلوں کے ساتھ ایمان لائے اور جوارح کے ساتھ اعمال کیے،﴿وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ﴾نیکیوں کے کرنے کا حکم دیا اور محرّمات سے بچنے کی تلقین کی﴿وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾اور مصائب،آفات اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بنا پر آنے والی اذیتوں پر صبر کرنے کی تلقین کی۔‘‘ [2] اعمال صالحہ پر[تواصي بالحق]اور[تواصي بالصبر]کے عطف کی حکمت: [تواصي بالحق]اور[تواصي بالصبر]دونوں اعمال صالحہ میں شامل ہیں،لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اعمال صالحہ کے ذکر کرنے کے بعد ان دونوں کا ذکر فرمایا۔اس کی حکمت کی بارے میں ذیل میں دو مفسرین کی تحریریں ملاحظہ فرمائیے: ا:شیخ محی الدین شیخ زادہ رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے: ’’[تواصي بالحق]اور[تواصي بالصبر]کا اعمالِ صالحہ میں شامل ہونے کے باوجود الگ مستقل طور پر ذکر کرنا،ان دونوں کی شان و عظمت آشکارا کرنے کے لیے ہے۔‘‘[3]
Flag Counter