آیت استخلاف سے عدم نزول کا استدلال بعضے منکرین نے آیت استخلاف کو بھی اپنی خواہشات کا تختہ مشق بنانے کی کوشش کی ہے، اللہ کریم نے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے : ﴿وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْـأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ﴾(النور : 55) ’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالحہ سر انجام دئیے، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کو زمین میں خلافت دے گا، جیسا کہ آپ سے پہلے لوگوں کو زمین میں خلافت دی تھی۔‘‘ منکرین نزول کہتے ہیں کہ آیت استخلاف میں جو وعدہ الٰہی مِنْکُمْیعنی ’’تمہاری امت میں سے‘‘ ہے، اس کے مطابق سارے کے سارے خلفا مسلمانوں میں سے ہونے چاہئیں اور اسی آیت کے مطابق ابن مریم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوگا اور امت کا امام ہو گا، اسی امت سے ہوگا، کسی اور قوم میں سے نہ آئے گا۔ ان حضرات کی یہ تفسیر بالکل باطل ہے، خوارج نے ﴿إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلّٰہِ﴾کی تفسیر اپنی مرضی سے کی، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کَلِمَۃُ حَقٍّ أُرِیدَ بِہَا بَاطِلٌ ۔ ’’کلمہ حق، مگر اس سے مراد باطل لیا جارہا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم : 1066) |