اس آیت میں عام خلفا کی بات ہورہی ہے، نہ کہ نبیوں میں سے ایک نبی کی، قیامت سے پہلے اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں اسلام کو غلبہ عطا فرمائیں گے اور ان کے ذریعے تمام ادیان باطلہ کی سرکوبی کی جائے گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ایک نبی ہونے کے باوجود، امت محمدیہ کے ایک فرد فرید ہیں، لہٰذا انہیں مِنْکُمْ کے عموم سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ پھر حیرت کی بات یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو مِنْکُمْ کے عموم سے خارج کرنے کے لئے ایک ایسی روایت پیش کی جاتی ہے، جو اولاً تو مِنْکُمْ کے عموم میں ان کے شامل ہونے کی دلیل بنتی ہے، نہ کہ نکلنے کی اور دوسرے یہ کہ وہ روایت ضعیف بھی ہے. ٭ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَلَا إِنَّ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ لَیْسَ بَیْنِي وَبَیْنَہٗ نَبِيٌّ، أَلَا خَلِیفَتِي فِي أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي ۔ ’’خبردار! عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں، خبردار! وہ میرے بعد میری امت میں میرے خلیفہ ہوں گے۔‘‘ (المُعجم الأوسط للطّبراني : 4898، المُعجم الصّغیر للطّبراني : 725) یہ روایت سخت ضعیف ہے۔ 1،2. عیسیٰ بن محمد صیدلانی بغدادی اور محمد بن عثمان بن یسار قرشی ’’مجہول‘‘ ہیں۔ 3. محمد بن عقبہ سدوسی ’’ضعیف‘‘ ہے۔ |