رفع کا معنی نزول مسیح کے حق میں قرآنی آیات کے بیان میں ہم صراحت کر آئے ہیں کہ اللہ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھا لیا تھا، وہاں لفظ ’’رفع‘‘ مستعمل ہوا ہے۔ منکرین نزول اس پر ایک شبہ قائم کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’’رفع‘‘ بلندی درجات کے معنی میں مستعمل ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا﴾(مریم : 57) ’’ہم نے انہیں بلند مقام عطا فرمایا۔‘‘ یہاں ’’رفع‘‘ بلندی درجات کے معنی میں لایا گیا ہے، لیکن اس کا اگر یہ مطلب لیجئے کہ ہر جگہ ہی ’’رفع‘‘ سے مراد بلندی درجات ہوگا، تو یہ قرآنی اسلوب سے ناواقفی کی دلیل محض ہے۔ قرآن مجید میں ’’رفع‘‘ دومعانی میں استعمال ہوا ہے، حقیقی معنی میں اور مجازی معنی میں، تو بسا اوقات اس کا حقیقی معنی مراد ہوتا ہے جیسا کہ ٭ قرآن مجید میں ہے : ﴿وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّورَ﴾(البقرۃ : 63) ’’اورہم نے تمہارے اوپر طور کو بلند کیا۔‘‘ ٭ ارشاد ربانی ہے : ﴿اللّٰہُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا﴾(الرعد : 2) |