’’وہ اللہ ہی ہے، جس نے بغیر کسی ستون کے آسمان کو بلند کر رکھا ہے، جیسا کہ تم دیکھتے ہو۔‘‘ ٭ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿وَرَفَعَ أَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ﴾(یُوسُف : 100) ’’انہوں (یوسف علیہ السلام ) نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بلند کیا۔‘‘ مذکورہ بالا تینوں آیا ت میں ’’رفع‘‘ حقیقی معنی میں مستعمل ہوا ہے اور ﴿وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا﴾ والی آیت میں مجازی معنوں میں۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام والا ’’رفع‘‘ بھی حقیقی ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ اور سلف صالحین وضاحت کر گئے، ٭ امام اسماعیل ابن ابی کریمہ سدی رحمہ اللہ ( 127ھ)فرماتے ہیں : لَمَّا رَفَعَ اللّٰہُ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ إِلَیْہِ، قَالَتِ النَّصَارٰی مَا قَالَتْ، وَزَعَمُوا أَنَّ عِیسَی أَمَرَہُمْ بِذٰلِکَ ۔ ’’جب اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو اپنی طرف اٹھا لیا، تو عیسائیوں نے اپنے زعم کے مطابق جو کہنا تھا، کہنا شروع کردیا، وہ کہتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے ہمیں یہی کرنے کو کہا تھا۔‘‘ (تفسیر الطّبري : 9/133، وسندہٗ حسنٌ، ھجر) جبکہ منکرین نزول کے بیان کردہ معنی کا تعین کسی صحیح حدیث یا اثر سے نہیں ہوتا، البتہ ایک اثر سے اس معنی کو کشید کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إِذَا تَوَاضَعَ رَفَعَہُ اللّٰہُ إِلَی السَّمَائِ السَّابِعَۃِ ۔ |