امام ترمذی رحمہ اللہ کے اس قول کا مطلب ہے کہ اس کی ایک سند ہے اور وہ ضعیف ہے۔ ٭ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ھٰذَا لَا یَصِحُّ ۔ ’’یہ حدیث ثابت نہیں ہے۔‘‘ (التّاریخ الکبیر : 1/262) متعارض دلائل : اب قائلین وفات کے دلائل کی طرف آتے ہیں، انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کے متعلق چند ایک دلائل پیش کئے ہیں، ان کے دلائل کا تجزیہ ملاحظہ ہو؛ 1. ایک عورت کا واقعہ ہے کہ اس نے مدینہ کی ایک جانب کسی پہاڑ پر نذر مانی تھی، لوگ اس عورت کے ساتھ پہاڑ پر نذر ماننے گئے، وہاں ایک بڑی قبر دیکھی، اس پر دو پتھر نصب تھے، ایک سر کی جانب اور دوسرا پاؤں کی جانب، اس قبر کا کتبہ لکھا تھا، جانے کون سی زبان تھی، لوگوں سے پوچھا گیا، کسی کو سمجھ نہیں آتی تھی، آخر ڈھونڈتے ڈھونڈتے بعض لوگ مل گئے، جنہوں نے اس پر لکھے ہوئے الفاظ کو سمجھ لیا، اس پر کندہ تھا : ہٰذَا قَبْرُ رَسُولِ اللّٰہِ عِیسَی بْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ ۔ ’’یہ اللہ کے رسول عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی قبر ہے۔‘‘ (تاریخ الطّبري : 1/604) من گھڑت واقعہ ہے؛ 1. محمد بن حمید رازی جمہور ائمہ حدیث کے نزدیک ’’ضعیف وکذاب‘‘ ہے۔ ٭ امام نسائی رحمہ اللہ نے ’’کذاب‘‘ کہا ہے۔ (الخلافیات للبیھقي : 1955، وسندہٗ صحیحٌ) ٭ محدث ابو بکر فضلک رحمہ اللہ (۲۷۰ھ) فرماتے ہیں : |