کمایا، وہ تمہارے اعمال ہیں اور تم سے ان کے اعمال بارے سوال نہ ہو گا۔‘‘ قَدْ خَلَتْ کا معنی قَدْ تَقَدَّمَت ْہے، یعنی جس طرح یہ امت ہے، اسی طرح اس سے پہلے بھی امتیں ہو گزری ہیں، اس سے سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کی وفات ثابت نہیں ہوتی، ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کو استثنا حاصل ہے۔ یہاں بات تو امتوں کی ہو رہی ہے، اس آیت میں عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی ذکر نہیں۔ قرآن مجید، متواتر احادیث اور فہم امت کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کو جسد عنصری کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے، قیامت کے قریب آپ کا نزول ہوگا، دجال کو قتل کریں گے، یہودیوں پر غلبہ پائیں گے، پھر آپ پر موت آئے گی، مسلمان آپ پر جنازہ پڑھیں گے۔ ﴿مَا الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ وَأُمُّہٗ صِدِّیقَۃٌ کَانَا یَأْکُلَانِ الطَّعَامَ﴾(المائدۃ : 75) ’’مسیح ابن مریم( علیہما السلام ) صرف رسول ہیں، ان سے پہلے بھی رسول ہو چکے ہیں، ان کی ماں سچی (عورت) ہیں، دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔‘‘ اس آیت کی تفہیم میں یہ کہنا کہ جب وہ دونوں زندہ تھے، تو کھانا کھایا کرتے تھے، اب اگر آسمانوں پر ہیں، تو کھائے بغیر زندہ کیسے رہ رہے ہیں؟ یہ قرآن کریم کی تحریف ہے، صحیح احادیث اور اجماع امت کی مخالفت ہے۔ اس قسم کے اعتراضات کی علم وعقل میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی، اگر تو آپ یہ کہیں کہ اللہ کسی کو کھائے پئے بغیر زندہ نہیں رکھ سکتا، تب پھر اس پر اعتراض رکھیں، وگرنہ تو وہ مالک یہ قدرت رکھتا ہے کہ اپنے ولیوں کو تین سو سال تک سلائے رکھے، ان کو جاگ نہ آئے، وہ دنیوی زندگی ہی میں بغیر کھائے پئے زندہ رہ لیں، اصحاب کہف کا واقعہ قرآن مجید میں بالتفصیل موجود |