Maktaba Wahhabi

66 - 88
کہا گیا، حالانکہ آپ زندہ تھے، معنی یہ تھا کہ آپ پر موت آنے والی ہے اورہر ذی روح کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام موت سے مستثنیٰ نہیں ہیں، مگر ابھی ان کی زندگی باقی ہے، اپنی زندگی کے دن پورے کر کے ہی فوت ہوں گے۔ 8. اللہ کریم فرماتے ہیں کہ فوت ہوجانے والے شخص کو فرشتے کہیں گے : ﴿یَآأَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ، ارْجِعِي إِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً، فَادْخُلِي فِي عِبَادِي، وَادْخُلِي جَنَّتِي﴾(الفجر : 30-27) ’’اے مطمئن انسان ! اپنے رب کے پاس لوٹ آ، وہ تجھ سے راضی ہے اور تو اس سے راضی ہے، میرے بندوں میں داخل ہوجا، میری جنت میں داخل ہو جا۔‘‘ اس آیت سے قائلین وفات یہ دلیل کشید کرتے ہیں کہ جب تک انسان فوت نہیں ہو جاتا، گزشتہ لوگوں کی جماعت میں شریک نہیں ہو سکتا، معراج کی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن انبیا سے ملاقات کی، ان میں عیسیٰ علیہ السلام بھی شامل تھے، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں، تبھی تو گزشتہ لوگوں میں شامل ہوئے۔ کس قدر بودا استدلال ہے کہ جب تک انسان فوت نہ ہو جائے، گزشتہ لوگوں کی جماعت میں داخل نہیں ہو سکتا، جبکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات اپنی زندگی میں پہلے انبیا سے ملاقات کی، تو کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہوچکے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو معراج کے بعد بھی ایک لمبا عرصہ تک زندہ رہے، لہٰذا یہ کوئی قانون نہیں ہے کہ پہلے فوت شدہ لوگوں سے ملنے کے لئے ایک نبی کا فوت ہونا ضروری ہے، واقعہ معراج اس نظریے کا رد کرتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلے وفات پاجانے والے انبیا سے
Flag Counter