6. فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿أَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِکْکُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَیَّدَۃٍ﴾ (النّساء : 78) ’’تم جہاں کہیں بھی ہو گے، موت تم کو آجائے گی، بھلے تم مضبوط قلعوں میں چھپ جاؤ۔‘‘ اس آیت میں تمام انسانوں کی موت کی خبر دی گئی ہے اور قائلین وفات نے اپنی عادت کے عین موافق اس سے بھی وفات عیسیٰ علیہ السلام کشید کر لی ہے، اس آیت کا مفہوم صاف ہے، ہر انسان کی موت کی خبر دی گئی ہے اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے فوت ہونے سے کوئی انکار نہیں کرتا، اہل اسلام کا مقدمہ یہ ہے کہ ابھی تک وہ فوت نہیں ہوئے، یہ مقدمہ بالکل نہیں کہ وہ فوت ہوں گے ہی نہیں، اس بات کو سمجھ لینا چاہئے، وہ فوت ہوں گے، مگر آسمان سے نزول کے بعد، زمین ان کا مدفن ہوگی، یہی معنی اس آیت کا ہے کہ جہاں کہیں بھی چلے جاؤ، موت ضرور آئے گی۔ 7. فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿اَللّٰہُ الَّذِي خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمْ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیکُمْ﴾ ۔ (الرّوم : 40) ’’اللہ نے تمہیں تخلیق کیا، پھر رزق دیا، پھر تمہیں مار دے گا اور پھر زندہ کرے گا۔‘‘ اس آیت کا بھی وہی مضمون ہے، جو پچھلی آیت میں بیان ہوچکا ہے اور یقینا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو بھی اللہ نے پیدا کیا، اللہ نے ان کو رزق دیا، اللہ ہی ان کو فوت کردے گا، لیکن ابھی وہ فوت نہیں ہوئے۔ ہو بہو اس آیت کا وہی مطلب ہے، جو ﴿إِنَّکَ مَیِّتٌ وَّإِنَّہُمْ مَیِّتُونَ﴾ کا ہے، یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نازل ہوئی اور اس میں آپ کو میت |