٭ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (۴۶۳ھ) فرماتے ہیں : الصَّحِیحُ عِنْدِي فِي ذٰلِکَ قَوْلُ مَنْ قَالَ ﴿مُتَوَفِّیکَ﴾ قَابِضُکَ مِنَ الْـأَرْضِ لِمَا صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ عَلَیْہِ السَّلَامُ مِنْ نُزُولِہٖ ۔ ’’میرے نزدیک اس بارے میں ان اہل علم کی بات صحیح ہے، جو کہتے ہیں کہ ’’متوفی‘‘ کا معنی زمین سے اٹھانا ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث میں نزول عیسیٰ علیہ السلام کا ثبوت موجود ہے۔‘‘ (التّمھید لما في المؤطإ من المَعاني والأسانید : 14/203) 4. اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَلَکُمْ فِي الْـأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ إِلٰی حِینٍ﴾(البقرۃ : 36) ’’زمین میں تمہارا ٹھکانہ ہے اور تم ایک وقت تک اس سے فائدہ اٹھاؤ گے۔‘‘ اس آیت سے استدلال لینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ انسان کا مستقر تو زمین ہے، وہ آسمان میں کیسے چلا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عمومی مستقر یقینا زمین ہی ہے، لیکن قرآن وسنت، اجماع امت اور فطرت میں کوئی ایسی دلیل موجود نہیں، جس کے مطابق کوئی انسان آسمان پر جاہی نہ سکتا ہو، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کروایاگیا، اسی طرح آسمان کی مخلوق زمین پر بھی آسکتی ہے، بلکہ آجاتی ہے، کتنے فرشتے زمین پر آتے رہے اور اب بھی آتے ہیں، اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام بھی آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ آپ نے زمین پر اپنی زندگی کے کچھ ایام گزار لئے، کچھ واپسی پر گزار لیں گے اور اپنی طبعی وفات پائیں گے، زمین ان کا مدفن ہوگی۔ |