Maktaba Wahhabi

62 - 88
لیکن کئی انسان اندھے اور بہرے بھی ہوتے ہیں، تو وہ لوگ اس کلی قاعدے سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر اس آیت کا معنی یوں کیا جاتا کہ ’’آپ سے پہلے رسول وفات پاچکے ہیں۔‘‘ تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا ان سے استثنا تسلیم کیا جاتا، جبکہ ’’خلا‘‘ تو سرے سے یہ معنی ہی نہیں دیتا۔ 3. تیسری مثال اس پر مذکورہ ذیل آیت سے لی جانے والی دلیل ہے، قرآن کریم سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا مقولہ ذکر کرتا ہے، وہ روز قیامت اللہ سے عرض کریں گے : ﴿وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیدًا مَّا دُمْتُ فِیہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِي کُنْتَ أَنْتَ الرَّقِیبَ عَلَیْہِمْ وَأَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ شَہِیدٌ﴾ (المائدۃ : 117) ’’میں جب تک ان میں رہا، ان کے اعمال کا گواہ رہا، جب تو نے مجھے اپنی طرف اٹھا لیا، تو پھر تو ہی ان کا نگہبان رہا، (کیونکہ) تو ہی ہر چیز پرگواہ ہے۔‘‘ اس آیت اور اس سے ملتی جلتی دیگر آیات میں تَوَفّٰی کا معنی موت کیا جاتا ہے، حالانکہ اس کا معنی ’’موت‘‘ نہیں، بلکہ اس کا معنی ’’اٹھایا جانا‘‘ ہوتا ہے، البتہ یہ لفظ مجازا موت کیلئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اور یہ ایک قاعدہ ہے کہ جس کلام میں دو معانی موجود ہوں، اس کو حقیقی معنی سے پھیرنے کے لئے دلیل یا کسی صریح قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے، تو اس آیت کا معنی ’’وفات پا چکنا‘‘ کرنے کا کوئی قرینہ موجود نہیں، البتہ قرآن و حدیث ، اجماع امت اور علمائے دین کی تصریحات سے ثابت ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھایا گیا ہے، قرب قیامت آپ کا آسمان سے نزول ہو گا۔
Flag Counter