2. قرآن مجید کی اس آیت کو بھی بہ طور دلیل وفات پیش کیا جاتا ہے : ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ﴾ (آل عمران : 144) ’’محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )صرف رسول ہیں، آپ سے پہلے بھی رسول ہوچکے۔‘‘ حالانکہ ’’خلا‘‘ ذو معنی لفظ ہے، اس کا معنی موت تو سرے سے ہے ہی نہیں، اس کا معنی ہو چکنا ہے، یعنی فلاں کام ہوچکا ہے، فلاں شخص گزر چکا ہے، فلاں بادشاہ ہوچکا ہے، پاکستان میں مشرف صدر رہ چکا ہے۔ ٭ علامہ راغب اصفہانی ’’خلا‘‘ کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فَسَّرَ أَہْلُ اللُّغَۃِ : خَلَا الزَّمَانُ بِقَوْلِہِمْ : مَضَی الزَّمَانُ وَذَہَبَ ۔ ’’اہل لغت نے خَلَا الزَّمَانُ کا معنی یوں کیا ہے کہ زمانہ گزر گیا اور چلا گیا۔‘‘ (المُفردات في غریب القرآن، ص 297) لہٰذا یہ معنی خطا ہوا، اس پر دلیل کی عمارت کھڑی کیوں کر ہو سکتی ہے، لیکن بالفرض والمحال اگر یہ معنی صحیح ثابت ہو پاتا، تب بھی استثنا کا قانون بہر حال ہر عمومی قاعدے میں موجود ہے، قرآن کریم میں ہے کہ ﴿إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَۃٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِیہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیعًا بَصِیرًا﴾(الدھر : 2) ’’ہم نے انسان کو ملے جلے قطروں سے پیدا کیا اور اسے سمیع وبصیر بنایا۔‘‘ لیکن آدم علیہ السلام اور خو دعیسیٰ علیہ السلام اس عمومی قاعدے سے مستثنیٰ ہیں، ان کی پیدائش آیت میں مذکور طریقے سے نہیں ہوئی، پھر اسی آیت میں ہے کہ ہم نے انسان کو سمیع و بصیر بنایا، |