4. یہ بھی ثابت کیا جائے کہ ایک عمومی قاعدے سے کسی شخص کا استثنا ممکن ہی نہیں ہے، مثلا عمومی قاعدہ ایک صدی تک زندگی کا ہے، لیکن کیا کوئی شخص تین صدیاں بھی زندہ نہیں رہ سکتا؟ نو صدیاں بھی زندہ نہیں رہ سکتا؟ اگر نہیں رہ سکتا، تو دلیل فراہم کی جائے، اگر نہیں رہ سکتا، تو پھر عمومی دلائل دینے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی۔ قائلین وفات اگر مذکورہ چار قسم کے دلائل فراہم کرسکیں، تو فبہا ونعمت، تب پھر سیدنا عیسی علیہ السلام کی وفات پر بحث کو ایک علمی رنگ دیا جا سکے گا، لیکن یہاں پر ایسی دلیل سرے سے موجود ہی نہیں، قائلین وفات کے دلائل بالکل ذو معنی کلام پر کھڑے ہیں۔ اس کی مثالیں ملاحظہ کیجئے! 1. اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخَالِدُونَ﴾ (الأنبیاء : 34) ’’آپ سے پہلے بھی کوئی ہمیشہ نہیں رہا، اگر آپ فوت ہوجائیں تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے؟‘‘ اب اس مثال میں غور و فکر کیجئے، دور تک ایسی دلیل نظر نہیں آئے گی کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں، اس میں ہمیشگی کی نفی ہے اور اہل سنت اس بات کو مانتے ہیں کہ سوائے اللہ کے کوئی بھی ذات ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے، لیکن ہمیشہ رہنے اور لمبا عرصہ تک رہنے میں زمین وآسمان کا فرق ہے، مخلوقات کا ہمیشہ رہنا ناممکن اور لمبے عرصے تک رہنا ممکن ہے، عیسیٰ علیہ السلام واپس آنے کے بعدفوت ہوں گے، ان کا جنازہ ہوگا،مسلمان ان کی تدفین کریں گے، ہمیشہ نہیں رہیں گے اور نہ یہ ان کے لائق ہے۔ |