Maktaba Wahhabi

70 - 180
((إِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی قَرَأَطُہُ وَیٰس قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ بِاَلْفِ عَامٍ فَلَمَّا سَمِعَتِ الْمَلَائِکَۃُ الْقُرْآنَ قَالَتِ طُوْبٰی لِأُمَّۃٍ یُنْزِلُ ہٰذَا عَلَیْہَا وَ طُوْبٰی لِأَجْوَابٍ تَحْمِلُ ہٰذَا وَطُوْبٰی لِأَلْسَنَۃِ تَتَکَلَّمُ بِہٰذَا۔)) [1] ’’اللہ جل شانہ نے زمین وآسمان کے پیدا کرنے سے ایک ہزار سال پہلے سورہ طٰہ ویٰس تلاوت کی جب فرشتوں نے سنا توکہنے لگے سعادت ہے (رشک، خیر، بہتری، عمدگی ) اس اُمت کے لیے جس پر یہ نازل ہوگا اور سعادت مند ہیں وہ پیٹ (سینے) جو اس کو اُٹھائیں گے (یاد کریں گے ) اور سعادتمند ہیں وہ زبانیں جو اس کو پڑھیں گی۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ترتیل کے ساتھ پڑھ کر سنایا اور نازل بھی ترتیل کے ساتھ کیا اور حکم دیا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ وہ بھی اسی ترتیل کے ساتھ اس کو پڑھیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے {وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلًا} (المزمل:4)’’اور قرآن مجید کو خوب ٹھہر ٹھہر کر (ترتیل کے ساتھ ) پڑھا کرو ‘‘ اور عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ ہی پڑھا کرتے تھے۔ (ابن کثیر:4/559) اور بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ترتیل کے ساتھ پڑھنا فرمان ربانی کی پیروی تھی۔ اور قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے میں ایک مماثلت پیدا ہو جاتی ہے جوکہ طریق نزول کی ہے کہ قرآن مجید چونکہ ٹھہر ٹھہر کر نازل ہوا یکبارگی نازل نہیں ہوا اور اسی طرح یہ تثبیث قلبی کا موثر ذریعہ بھی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ترتیل سے پڑھنے سے قلب انسانی کو زیادہ سے زیادہ فیض و فائدہ حاصل ہوتاہے حتیٰ کہ شدت تاثر سے قلب میں گریہ طاری ہوجاتا ہے اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ترتیل سے پڑھتے تھے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ اُنھوں نے فرمایا: ((لأن أقرأ سورۃل أرتلہا أحب إلی من أن أقرأ القرآن کلہ)) [2]
Flag Counter