Maktaba Wahhabi

68 - 180
تاکیدی حکم تھا کہ رات کا اکثر حصہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو کر قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے ہوئے بسر کرو اور خصوصاً جب مشکلات و مصائب کا زور ہوتا تھا اور صبر و استقامت کی خصوصی ضرورت ہوتی تھی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاوت قرآن مجید کا حکم دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت فرماتے اور تما م مصائب دور ہو جاتے۔ تر و تازگی اور خوشیاں لہلہانے لگتیں اور مصائب کا قلع قمع ہو جاتا، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور شادابیوں سے اور فرحتوں سے ہمکنار ہوتے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ان قدردانوں کی کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں : {اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ اُولٰٓئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ .}(البقرۃ: 121) ’’وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب (قرآن مجید ) عطاء کی ہے وہ اس کی تلاوت اس طرح کرتے ہیں کہ جس طرح کرنے کا حق ہے یہی لوگ ا س کے ساتھ (قرآن مجید کے ساتھ ) ایمان رکھتے ہیں ‘‘ مذکورہ تینوں آیات میں لفظ تلاوت استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی پیچھے چلنے اور پڑھنے کے آتے ہیں جو کہ تَــلَا یَتْلُوْ تِـلَاوَۃً وَتلوّا سے اور تَالَاہٗ بھی اسی سے ہے جس کا معنی تابعداری کرنا اور موافقت کرنا ہے، چنانچہ احترام و تعظیم کے ساتھ قرآن مجید کو ایک مقدس آسمانی کتاب سمجھتے ہوئے انابت و خشوع و خضوع کے ساتھ حصول برکت و نصیحت کی غرض سے اپنے آپ کو اس کے حوالے کرکے پڑھنے کو تلاوت کہتے ہیں اور یہی چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ آیتوں میں مقصود تھی جس کو اُنھوں نے پورا فرمایا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی پورا کیا جس کو اللہ تعالیٰ نے {حَقَّ تِلَاوَتِہٖ} ’’جس طرح حق ہے ‘‘ …سے تعبیر کیا اگرچہ قرآن مجید کو پڑھنے کے لیے قراء ت کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے اور وہ لفظ عمومی ہے ہر چیز کے پڑھنے پر اس کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید کا مسلمان ہونے کے ناطے سے ہر ایک پر حق یہ ہے کہ
Flag Counter