Maktaba Wahhabi

65 - 180
یہی وہ ایمان محکم تھا (جس کا تذکرہ ابھی ہوا ہے ) جس کااقرار سلف صالحین نے کیا اور پھر زبان سے صرف اقرار نہیں کیا، بلکہ دل میں اس کو جگہ دی اور تصدیق کی اور پھر اس کے مطابق عملِ پیہم کی مہریں ثبت کیں تو چشم فلک نے دیکھا کہ پوری کائنات پر ان کا رعب ودبدبہ جم گیا اور اُنھوں نے پوری کائنات کو Enthral (گرویدہ) کیا اور یہ ساری زندگی کی حلاوتیں اور لذتیں اور ثروت و حکومت اور بادشاہت و خلافت ان کو کیوں نہ ملتی، کیونکہ اُنھوں نے اسلام کے مل جانے کے بعد اس قرآن مجید پر ایمان اس طرح قائم کیا کہ قلبی تصدیق کو کافی نہ سمجھا بلکہ اس کو پورے کے پورے کو دل میں اور سینے میں اتار لیا تو ان کے باطن جب منور ہوئے تو پھر اسی قرآن مجید کی روشنی کے ذریعے اُنھوں نے پوری کائنات کو منور و روشن کیا۔ بقول شاعر: کیوں نہ ممتاز ہوتا اسلام دنیا بھر کے دینوں میں وہاں مذہب کتابوں میںیہاں قرآن سینوں میں لیکن آج ہم اس ایمان سے خالی ہیں کوئی کلام اللہ کے حقیقی ہونے کا اقرار کرتا ہے کوئی اس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جادو وطلسم اور سابقہ کتب کا خلاصہ تصور کرتا ہے اور کوئی فرمان باری تعالیٰ {إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ}کے چیلنج کو قبول کرکے کہتا ہے کہ قرآن مجید نازل تو ہوا تھا سات حروف میں، اب ایک باقی رہ گیا ہے۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں یہی وجہ ہے کہ جب ایمان ایسا ہو تو پھر اس کے ثمرات کیسے مل سکتے ہیں ؟ کیونکہ پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی ہے۔ خشت اول چو نہد معمار کج تا ثریا می رود از دیوار کج ’’جس دیوار کی پہلی اینٹ معمار ٹیڑھی لگا دے وہ آسمان تک (ثریا تک ) بھی چلی جائے وہ ٹیڑھی ہی ہوتی ہے ‘‘ تو جب اس ایمان کو ٹیڑھا کیا تو اس کے نتائج بھی برے دیکھے کیونکہ ٹیڑھے کا نتیجہ
Flag Counter