Maktaba Wahhabi

32 - 180
’’تم میں بہترین وہ ہے جو قرآن کی تعلیم لے اور اس کی تعلیم دے۔ ‘‘ اور سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ((خِیَارُ کُمْ مَنْ تَعَلَّم الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ))[1] ’’تم میں سے اعلیٰ اور پسندیدہ وہ ہے جو قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرے اور اس کی تعلیم دے۔ ‘‘ اور بخاری کی ایک دوسری روایت میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ((إِنَّ أَفْضَلَکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ۔))[2] ’’بے شک تم میں افضل ترین شخص وہ ہے جو قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرے اور اس کی تعلیم دے۔ ‘‘ تو گویا افضلیت اور پسندیدگی اور اعلیٰ ہونے کا معیار قرآن مجید کی تعلیم و تعلم ہے لیکن آج کا مسلمان دولت فانی کے گھمنڈ میں آکر افضلیت کی کسوٹی اور اعلیٰ ہونے کا معیار اپنی جھوٹی دولت و ثروت اور گاڑیوں کو تصور کرتا ہے اور پھر اس تصور کو سچا بھی سمجھتا ہے اور عجیب و غریب دلائل پیش کرتا ہے اور یہی وہ فکر مذموم ہے جوکہ مسلمانوں میں سرایت کرگئی اور تخلف و ذلت نے اپے پنجے گاڑ لیے اور آخر کار قرآن مجید کی اس نعمت سے خود کو بھی دور کیا اور اپنے عمل سے لوگوں کو بھی قرآن مجید سے دور کیا حتیٰ کہ {ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَبَاؤُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللّٰہِ}کا مصداق تو یہود تھے لیکن مسلمانوں نے دنیا فانی میں کھوکر اپنے اوپر اس کی مہر ثبت کروائی۔ اے کاش مسلمان تو نے اپنے فضل و برتری وفضیلت کو برقرار رکھا ہوتا تو آج اغیارکا غلام نہ بنتا آج ورلڈ بینک اس کو ذلت کا ناچ نہ نچاتا۔ مسلمان اپنے امتیازات کو زندہ رکھتا جو کہ قرآن مجید کی تعلیم و تعلّم میں تھا تو آج کشمیر میں ہندومستیاں نہ کرتا، چیچنیا میں مسلمانوں پر آگ نہ برسائی جاتی، فلسطین کو اُلٹی چھری سے ذبح نہ کیا جاتا اور کاش
Flag Counter