چہرہ ڈھانپنے کے وجوب کے دلائل میں سے ایک دلیل ،ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی حدیث ہے،فرماتی ہیں:میرا رضاعی چچاافلح، جوکہ ابوالقعیس کا بھائی ہے،مجھے ملنے آیا،اس وقت پردے کی آیات نازل ہوچکی تھیں،میں نے اسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکارکردیا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے توانہیں اس معاملے سے آگاہ کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گھر داخل کرنے کا حکم دے دیا۔[1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث سے بھی عورت کیلئے،اجنبی مردوں سے پردے کاوجوب ثابت ہورہا ہے۔[2] نبہان رحمہ اللہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے روایت کرتے ہیں،وہ فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:اگر کسی عورت کے پاس مکاتب غلام ہواوراس غلام کے پاس اپنی قیمت اداکرنے کی استطاعت ہوتو وہ عورت اس سے لازمی پردہ کرے۔[3] اس حدیث کے تحت امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اس حدیث میں وارد امر کا صیغہ،ظاہراً وجوب پر دلالت کررہا ہے۔[4] نبہان ہی سے مروی ہے،ام سلمہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں :میں اورمیمونہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں،نابیناصحابی ابن ام مکتوم آگیا،اس وقت پردے کی آیات نازل ہوچکی تھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس سے پردہ کرو،ہم نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو نابیناہے،نہ ہمیں دیکھ سکتاہے اورنہ ہی پہچانتاہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم دونوں بھی اندھی ہو؟کیا تم اسے نہیں دیکھ رہیں؟[5] یہاں وارد ام سلمہ رضی اللہ عنہاکے اس قول پر غوروفکرکیجئے کہ یہ واقعہ نزولِ حجاب کے حکم کے بعد کا ہے(یعنی انہوں نے نزولِ حجاب کواللہ تعالیٰ کا حکم قرار دیاہے)اور اصولِ فقہ کے قواعدمیں،یہ قاعدہ موجود ہے کہ شریعت کا ہرامر(حکم)اصلاًوجوب کیلئے ہے ، جبکہ ہرنہی اصلاًتحریم کیلئے ہے،إلا یہ کہ کوئی ایسا شرعی قرینہ آجائے جو امر کے وجوب کو اور نہی کی تحریم کوپھیرنے والاہو۔اور حجاب کی آیات واحادیث میں امراورنہی دونوں موجودہیں(یعنی پردے کا حکم اور بے پردگی کی ممانعت وتحریم)اور کوئی ایسا قرینہ بھی موجود نہیں جوامریانہی کے اصل معنی کو ختم کرسکے،لہذا امرونہی اپنے اصل معنی پر قائم اور موجود رہیں گے(یعنی پردے میں چہرہ ڈھانپنا واجب ہوگااور اسے کھولنا حرام ہوگا) (۳)آیت الجلابیب[ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ]میں بھی ایک واضح قرینہ پایاجاتاہے جو امرکے وجوب پر ہونے کی دلالت کررہاہے،وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کو جلابیب یعنی اوڑھنیاں اوڑھے رکھنے کاحکم دیا ہے،جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کودیا،اوربہت سے اہلِ علم جن میں قاضی عیاض بھی شامل ہیں، فرماتے ہیں: نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کیلئے چہرے اورہاتھوں کو ڈھانپنے کے وجوب میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔[6] جس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام عورتوں کے چہرے اورہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب میں بھی کوئی اختلاف نہ ہو۔(کیونکہ سب کیلئے پردے کاحکم ایک ہی سیاق میں ہے، لہذامومن عورتوںکو ازواجِ مطہرات کے حکم سے الگ کرنا بلادلیل ہوگا ۔) (۴)آیت القواعد:[وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ...الآیۃ]میں بھی کسی شک وشبہ کے بغیر چہرے کے پردے کے واجب ہونے کی دلیل موجود ہے؛کیونکہ آیت کریمہ نے بوڑھی عورتوں کو(مقررہ شرط کے تحت)اپنی چادریں چہروں سے ہٹانے کی رخصت دی ہے،اوررخصت اسی مسئلہ سے دی جاتی ہے جواصلاً فرض ہو۔ پھرآیتِ کریمہ نے بوڑھی عورتوں کیلئے مذکورہ رخصت کے باوجود ،اپنے چہروں کو ڈھانپے رکھنے کے عمل پر پسندیدگی ظاہرکی ہے اور اسے خیرقراردیاہے،کھلی آنکھوں والوں کیلئے یہ اسلوبِ قرآنی بھی اس بات پر دال ہے کہ چہرے کوڈھانپنا واجب ہے۔ |