دلیل:
امام احمد رحمہ اللہ نے ابونہیک رحمہ اللہ سے روایت نقل کی ہے کہ:
((أَنَّ أَبَا الدَّرْدَآئَ رضی اللّٰه عنہ کَانَ یَخْطُبُ النَّاسَ:’’أَنْ لاَ وِتْرَ لِمَنْ أَدْرَکَ الصُّبْحَ۔‘‘
فَانْطَلَقَ رِجَالٌ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ إِلَی عَائِشَۃَ رضی اللّٰه عنہا فَأَخْبَرُوْہَا،فَقَالَتْ:’’کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُصْبِحُ،فَیُؤْتِرُ۔‘‘))[1]
’’یقینا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے دوران خطبہ فرمایا:’’صبح پانے والے کے لیے وتر نہیں’‘۔کچھ اشخاص عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے،اور انہیں اس بات کی خبر دی،اس پر انہوں نے فرمایا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت وتر پڑھتے تھے۔‘‘
قصے سے مستفاد باتیں:
1 حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ اپنی صداقت واستقامت کے باوجود اپنے فتاویٰ میں معصوم نہیں تھے۔
2 سنت ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعارض کی صورت میں کسی کی شان وعظمت اس پر احتساب کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔
3 احتساب کی تایید سنت ِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے کی جائے گی،یا فرمان رب العالمین سے،یا دونوں سے۔اس کے بغیر احتساب میں زور وقوت کا پیدا ہونا مشکل ہے۔
٭٭٭
|