6۔ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما (بوجہ فی کس پانچ ہزار درہم سالانہ قرابت) 7۔ مہاجر جنہوں نے فتح مکہ تک ہجرت کی فی کس تین ہزار درہم سالانہ 8۔ اہل بدر کے لڑکے فی کس دو ہزار سالانہ 9۔ فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والے فی کس دو ہزار درہم سالانہ 10۔ مدینہ کے عام مقیم مسلمان فی کس پچیس دینار سالانہ اہل یمن اور شام کے لوگوں کے لیے بھی بلحاظ مراتب دو ہزار، ہزار، نوسو، پانچ سو اور تین سو کے عطایا مقرر کیے گئے تھے۔ تین سو سے کم کسی کو نہ ملتا تھا۔ مندرجہ بالا جدول سے ظاہر ہے کہ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہم اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کے وظائف میں قرابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ باقی تمام شقیں مراتب کے لحاظ سے وظائف کی کمی بیشی کو ظاہر کر رہی ہیں۔ پھر جہاں کہیں قرابت اور مراتب دونوں صفات مشترک ہو جاتیں تو وظیفہ کی تعیین میں اعتراض کی گنجائش بھی پیدا ہو جاتی بالخصوص ایسی صورت میں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت واضح طور پر نمایاں نہ ہوتی۔ مثلاً 1۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ ابن ابی سلمہ ( یہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے صاحبزادے تھے۔) کا وظیفہ چار ہزار درہم مقرر کیا تو عبد اللہ رضی اللہ عنہ ابن جحش نے، جن کا وظیفہ دو ہزار مقرر کیا گیا تھا، یہ اعتراض کر دیا کہ ہمارے باپوں نے ہجرت بھی کی تھی اور جنگ بدر میں بھی شریک ہوئے تھے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ کس بنا پر عمر رضی اللہ عنہ ابن ابی سلمہ کو ہم |
Book Name | اسلام میں دولت کے مصارف |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبۃ السلام، لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 138 |
Introduction | مصارف دولت کے مضمون پر اس کتاب میں موصوف نے تین ابواب پر بحث کی ہے اس میں مصنف نے بے شمار دلائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے پہلے باب میں شرعی احکام کی حکمت بتائی ہے حالات کے لحاظ سے مراعات کی تقسیم , کم استعداد والوں کے لیے مراعات اور زیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات کی وضاحت فرماتے ہوئے واجبی اور اختیاری صدقات کا بلند درجہ بھی بتایا ہے جبکہ دوسرے باب میں عورتوں کا حق مہر اور اسلام میں دولت فاضلہ یا اکتناز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ارکان اسلام کی بجا آوری کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس طرح خلفائے راشدین اور فاضلہ دولت پر بحث کرکے امہات المومنین کا کردار اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی بھی نشاندہی کی ہے تیسرے باب میں جاگیرداری اور مزارعت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بنجر زمین کی آبادکاری , جاگیریں بطور عطایا , آبادکاری کے اصول , ناجائز اور غیر آباد جاگیروں کی واپسی , زمین سے استفادہ کی مختلف صورتیں اور اسلام نظام معیشت میں سادگی اور کفالت شعاری کا مقام بتاتے ہوئے مزارعت کے قائلین اور منکرین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔ |