’’اے اللہ!انسانوں کے رب!بیماری دور کر،شفا دے تو شفا دینے والا ہے،تیرے سوا کسی کی شفا نہیں ہے۔ایسی شفا دے جو بیماری کے اثرات کو باقی نہ چھوڑے۔‘‘[1]
4: جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ خَمْسٌ:رَدُّ السَّلَامِ،وَ عِیَادَۃُ الْمَرِیضِ،وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ،وَ إِجَابَۃُ الدَّعْوَۃِ،وَتَشْمِیتُ الْعَاطِسِ‘
’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں:سلام کا جواب دینا،بیمار کی بیمار پرسی کرنا،جنازے کے ساتھ جانا،دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا۔‘‘ [2]
5: اگر کسی معاملہ میں قسم ڈال دے تو اس کی قسم پوری کرے،بشرطیکہ اس میں کوئی ناجائز بات نہ ہو،یعنی وہ کام کردے جس پر اس نے قسم ڈالی ہے تاکہ وہ اپنی قسم پوری کر سکے۔
براء بن عازب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’أَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بِعِیَادَۃِ الْمَرِیضِ،وَاتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ،وَ تَشْمِیتِ الْعَاطِسِ،وَ إِبْرَارِ الْمُقْسِمِ،وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ،وَ إِجَابَۃِ الدَّاعِي،وَ إِفْشَائِ السَّلَامِ‘
’’ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ بیمار کی بیمار پرسی کریں،جنازے کے ساتھ جائیں،چھینک کا جواب دیں،قسم ڈالنے والے کی قسم پوری کریں،مظلوم کی مدد کریں،دعوت دینے والے کی دعوت قبول کریں اور سلام کو عام کریں۔‘‘ [3]
6: اگر کسی معاملہ میں وہ خیر خواہی اور مشورہ طلب کرے یا کسی بات کی صحت و درستی دریافت کرے تو اس کے لیے اچھائی مدنظر رکھے اور اس کی خیر خواہی کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’إِذَا اسْتَنْصَحَ أَحَدُکُمْ أَخَاہُ فَلْیَنْصَحْ لَہُ‘ ’’جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے خیرخواہی کا طلب گار ہو تو وہ اس کی خیر خواہی کرے۔‘‘ [4]
نیز فرمایا:’اَلدِّینُ النَّصِیحَۃُ،قُلْنَا:لِمَنْ؟ قَالَ:لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہٖ وَلِرَسُولِہٖ وَ لِأَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ وَ عَامَّتِہِمْ‘
’’دین خیر خواہی(کا نام)ہے۔‘‘ صحابۂ کرام نے عرض کی:کس کے لیے؟ فرمایا:’’اللہ،اس کی کتاب،اس کے
|