Maktaba Wahhabi

41 - 124
ومبادی میزان صفحہ ۲۲۔۲۳) جواب:۔ غامدی صاحب کا یہ موقف خود ساختہ ہے اور اس کی حیثیت شاذ کی طرح ہے کیونکہ ان سے پہلے اہل علم میں سے کسی محدث یا مفسر نے قرآن کے اس نام(میزان)کو بیان نہیں کیا اورنہ ہی کسی مفسر نے اس آیت کی تفسیر اس طرح بیان کی جیساکہ غامدی صاحب نے اوپر بیان کی ہے عربی زبان میں لفظ(و)کی کئی اقسام ہیں لیکن جب لفظ(و)اگر کسی جگہ استعمال ہوتا ہے تو اس کا تعین کرنے کے لئے(کہ یہ(و)قسم کے لئے یا تفسیر کے لئے ہے)دلیل یا کسی قرینے کی ضرورت ہوتی ہے مثال کے طور پر قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے ’’قد جآء کم من اللّٰه نور وکتاب مبین ‘‘(المائدہ ۵ آیت ۱۵)یقینا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور یعنی کتاب مبین آئی ہے ‘‘ یہاں پر’’ نورکتاب‘‘ کے درمیان میں جو(و)ہے تفسیر کے لئے ہے کیونکہ اس کی اگلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے ’’ یھدی بہ اللہ ‘‘ اللہ اس کے ذریعے ہدایت دیتا ہے ‘‘ یہاں ’’بہ ‘‘ یعنی ضمیر مفرد مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نور اور کتاب ایک ہی چیز ہیں اور کتاب نور کی تفسیر ہے کیونکہ اگر نور اور کتاب دونوں الگ الگ چیزیں ہوتی تو ’’بہ‘‘ کی جگہ ’’بھما‘‘ ہوتا یعنی ضمیر تثنیہ غائب کا صیغہ استعمال ہوتا۔ جس طرح یہاں دلیل کے ساتھ واضح کیا گیا ہے کہ لفظ(و)تفسیر کے لئے استعمال ہوا ہے غامدی صاحب کو یہ بھی چاہیے تھا کہ وہ دلیل کے ساتھ اپنی بات کی وضاحت کرتے لیکن غامدی صاحب نے اپنی عادت سے مجبور ہوکر بغیر دلیل سے کہہ رہے ہیں کہ ’’والمیزان ‘‘ میں(و)تفسیر کے لئے استعمال ہوا ہے لہٰذا غامدی صاحب کی یہ بات کالعدم ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے۔غامدی صاحب اگر قرآن کو غور سے پڑھتے اور اسلاف کے طریقے کو اپناتے تو یہ نوبت نہ آتی۔دوسروں کو تو غامدی صاحب قرآن مجید غور وفکر اور اسے بغیر کسی دوسری چیز کا سہارا
Flag Counter