Maktaba Wahhabi

39 - 124
لہٰذا اگر قرآن میں کوئی عام لفظ وارد ہوتا ہے لیکن اس سے مراد کوئی خاص چیز ہوتی ہے تو اس کی معرفت کسی دوسرے قرائن اور دلائل سے ہوتی ہے۔اور اس آیت ’’ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ‘‘ میں عام لفظ ذکر ہوا ہے اور اس کی خصوصیت کی کوئی دلیل نہیں۔بلکہ اس کے عام ہونے پر کافی دلائل موجود ہیں۔ اور اسی طرح غامدی صاحب کہتے ہیں کہ ’’وان من اہل الکتاب‘‘(النسائ،آیت،۱۵۹۴)میں پورے عالم کے اہل کتاب مرادنہیں ہے۔ غامدی صاحب کا یہ اصول کہ عام لفظ خصوصیت پر بھی دلالت کرتا ہے کسی حد تک صحیح ہے جیسا کہ واضح کیا جا چکا ہے مگر جو انہوں نے مثال پیش کی ہے کہ : ’’وَإِن مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ‘‘ اس میں پورے عالم کے اہل کتاب مراد نہیں ہیں یہ مثال سراسر اس اصول کے خلاف ہے کیونکہ کسی بھی عام لفظ کو خاص کرنے کے لئے قرائن و شواہد اور دلائل کو دیکھا جا تا ہے مثلاً قرآن مجید میں ارشاد ہے : ’’أَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَی مَا آتَاہُمُ اللّٰهُ مِن فَضْلِہِ‘‘ ترجمہ: کیا یہ(یہود)لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس چیز پر جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا کی ہے۔‘‘(سورۃ النسائ،آیت۵۴) اب لفظ ’’الناس ‘‘عام ہے لیکن اس سے مراد خاص محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جیسا کہ امام ابن جریر اطبری رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں : ’’عن ابن عباس رضی اللہ عنہ :’’أَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَی مَا آتَاہُمُ اللّٰهُ مِن فَضْلِہِ‘‘یعنی محمدا صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘(التفسری الطبری،ج۴،ص۱۴۱) جب کہ غامدی صاحب کی پیش کردہ آیت :’’وَإِن مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ ‘‘میں اہل
Flag Counter