Maktaba Wahhabi

31 - 124
ہوتے ہیں باقاعدہ اس موضوع پر ادب و لغت کی مشہور کتاب ’’اتفاق المبانی وافتراق المعانی‘‘کے نام سے لکھی گئی ہے۔جس کے مصنّف ’’ابوربیع سلیمان بن بنین‘‘ ہیں۔جنہوں نے اپنی اس کتاب میں اس موضوع سے متعلق باب باندھا ہے’’ما اتفق لفظہ واختلف معناہ ‘‘کے نام سے یعنی ایک لفظ کے مختلف معانی(دیکھے مذکورہ کتاب ص۱۰۵)اس باب میں مصنف نے لفظ(عین)کو مثال کے طور پر پیش کیا عین کے معنی آنکھ کے بھی ہوتے ہیں جیسا کہ اس آیت مبارکہ میں(’’وابیضّت عینٰہ‘‘سورۃ یوسف۱۲،آیت ۸۴)اور انکی(یعقوب علیہ السلام کی)آنکھیں سفید ہو گئیں اور عین کے معنی پانی کے چشمے کے بھی ہوتے ہی جیسا کہ اس آیت مبارکہ میں(’’عینا یشرب بھاعباداللّٰه‘‘(الدھر۷۶،۵)یہ ایک چشمہ ہے اس سے پیئں گے اللہ کے بندے۔ لہٰذا غامدی صاحب کا یہ کہناکہ نجم کے معنی تاروں اور تمنّیٰ کے معنی خواہش کے ہی ہوں گے جہالت پر مبنی ہے وگرنہ ہم غامدی صاحب سے پوچھتے ہیں کہ مذکو رہ دونوں آیتوں میں لفظ عین استعمال ہوا ہے کیا غامدی صاحب کا یہاں بھی یہی خیال ہے جو لفظ نجم اور تمنّیٰ کے بارے میں ہے؟ صاحب کشاف زمحشری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ النجم والشجر میں نجم کے معنی بوٹی کے بیان کیے ہیں(دیکھے تفسیر الکشاف ج۴،ص۴۴۲) یہ ان کی تفسیر ہے جنہیں غامدی صاحب خود لغت کے بہت بڑے امام مانتے ہیں۔اور یہ تفسیر اکثر مفسّرین کی ہے جیسا کہ،قرطبی،ابن کثیر،بغوی وغیرہ۔ اسی طرح لغت کی مشھور کتاب(لسان العرب)میں ابن منظورنے جو کہ لغت کے بہت بڑے عالم ہیں اور اسی کتاب کے مصنف ہیں یہاں النجم کے معنی یہی بیان کرتے ہیں(دیکھئے لسان العرب ج۱۴،ص۱۵۹) اور سورۃ الحج کہ آیت نمبر۵۲لفظ’’ تمنّیٰ ‘‘تلاوت کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے نہ کہ خواہش
Flag Counter