Maktaba Wahhabi

22 - 124
کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے لیکن یہ جتنا کچھ بھی باقی ہے اہل ذوق کے لئے متاع بے بہاہے۔(اصول ومبادی،ص۱۴) جواب:۔ بلا شبہ قرآن مجید کے بعد عربی زبان احادیث اور آثار صحابہ کے وسیع ذخائر میں ہی ملتی ہے اور یہ کہنا کہ روایت بالمعنی کی وجہ سے بہت تھوڑا حصہ ہی باقی رہا ہے جسے اب زبان کی تحقیق میں سند وحجت کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے انتہائی کم علمی پر مبنی اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شک وشبھات پیدا کرنے والا اصول ہے اس میں شک نہیں کہ احادیث اوراقوال صحابہ رضی اللہ عنہ میں کچھ مرویات روایت بالمعنی منقول ہوئیں ہیں مگر تمام ذخیرہ حدیث روایت بالمعنی منقول نہیں ہے اس لئے کہ صحابہ کرام نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو بلفظہ بیان کرنے کے لئے کماحقہ کوشش فرمائی ہے۔جیسا کہ حضرت ابو ہریر رضی اللہ عنہ کے متعلق ایک واقعہ بڑا مشہور ہے کہ مروان نے ایک مرتبہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور اپنے کاتب کو چارپائی کے نیچے بٹھا کر ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے سوال کرنے لگا،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے جوابات(احادیث)کو وہ کاتب چارپائی کے نیچے بیٹھا لکھتا رہا پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وہاں سے تشریف لے گئے ایک سال گزرنے کے بعد مروان نے ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ کو پھر بلوا بھیجا اور اسی کاتب کو پردے کے پیچھے بٹھا دیا اور مروان نے گزشتہ سال پوچھے گئے سوالات کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دوبارہ پوچھنا شروع کردیا تو اس کاتب کا بیان ہے کہ ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ نے ان جوابات(احادیث)میں نہ زیادتی کی نہ کمی نہ کوئی چیز آگے بیان کی اور نہ کوئی چیز پیچھے بیان کی۔(سیر اعلام النبلاء،ج۳،ص۵۲۲) اور اسی طرح صحابہ کرام سے تابعین کرام نے روایت بلفظہ ہی نقل کی ہیں۔جیسا کہ امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ کے متعلق امام ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں رقمطراز ہیں کہ’’خلیفہ ہشام بن عبدالملک نے امام زہری سے تقریباً چار سو احادیث املا کروائیں اور پھر ایک مہینے کے بعد دوبارہ امام زہری کو بلوایا اور کہا کہ وہ کتاب جو آپ نے لکھوائی تھی ضائع ہو گئی ہے اسے دوبارہ لکھوادیں امام زہری نے
Flag Counter