Maktaba Wahhabi

20 - 124
غامدی صاحب کے اصول کی حقیقت معلوم ہوجائے گی ایک طرف تو غامدی صاحب ضعیف احادیث کو دین کا حصہ تسلیم کررہے ہیں(جیساکہ بچے کے کان میں اذان دینا)دوسری طرف وہ احادیث جو اخبار احاد کے نام سے جانی جاتی ہیں چاہے وہ سند کے لحاظ سے صحیح ہو ں یا نہ ہوں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور اسے دین ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ ایک طرف غامدی صاحب یہ فرماتے ہیں کہ حدیث قرآن کی تخصیص نہیں کرسکتی دوسری طرف خود قرآن کی اس آیت کی تخصیص کررہے ہیں۔ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا(سورہ حشر آیت ۷) ترجمہ :اور جو کچھ تمہیں رسول دیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز آجاؤ۔ یہ حکم ہر صحیح حدیث سے متعلق عام ہے چاہے وہ خبر متواتر کی صورت میں ہو یا خبر واحد کی صورت میں ہو۔لیکن غامدی صاحب نے اپنی مرضی اور مطلب کی احادیث اور روایتوں کو دین سمجھ کر اور اسے اپنا کر قرآن کے اس حکم کی تخصیص کردی۔جب غامدی صاحب کے نزدیک حدیث کو یہ حق نہیں کہ وہ قرآن کی تخصیص کرے تو غامدی صاحب کو خود قرآن کی تخصیص کا حق کس نے دیا۔ اورجہاں تک بات ہے غامدی صاحب کے اس اصول کی کہ اخبار احاد سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی درجہ یقین کو نہیں پہنچ سکتا اور دین میں ان سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ نہیں ہوتا۔غامدی صاحب کا یہ خود ساختہ اصول ہے کیونکہ خبر واحد کے بارے میں ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ علم یقین کا فائدہ دیتی ہیں اور اس پر عمل واجب ہے(الاحکام فی الاصول الاحکام جلد ۱ صفحہ ۱۳۸)اگر آپ کہیں کہ جمہور محدثین نے اسے ظنی کہا ہے تو محدثین کی یہاں ظن سے مراد یہ ہے کہ جب تک ان کی صحت ثابت نہ ہوجائے تب تک یہ ظنی ہے کیونکہ صحت ثابت ہونے کی جو شروط ہیں یہ ظن کو دور کردیتی ہیں۔جیسا کہ ڈاکٹر صبحی الصالح اپنی کتاب میں ذکر کرتے ہیں ’’لامعنی للقول بظنیۃ الحدیث الاحادی بعد ثبوت صحتہ لأن مااشترط فیہ
Flag Counter