Maktaba Wahhabi

13 - 124
’’ ثُمَّ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً ‘‘(النحل۔۱۲۳) ترجمہ :پھر ہم نے وحی کی تمہاری طرف کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو۔ یہاں اللہ رب العزت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہے اور لازمی بات ہے کہ جس چیز کا حکم اللہ نے اپنے نبی کو دیا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل بھی کیا ہوگا۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل پوری امت کے لئے اسوہ نمونہ اور حجت ہے: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللّٰهَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللّٰهَ کَثِیْراً۔(سورۃ الاحزاب،آیت۲۱) ترجمہ:’’یقینا تمھارے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے اس کے لئے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے،اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔‘‘ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملت ابراہیمی کی معرفت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ہوتی ہے جو کہ ہمارے پاس احادیث کے ذریعے پہنچی چاہے متواترہو یا احاد۔(احاد کے بارے میں غامدی صاحب کا جو اصول ہے اس کی بحث آگے آئے گی۔انشاء اللہ) (۲)مذکورہ آیت میں ملت ابراہیمی سے مراد توحید(عقائد)ہے کیونکہ اگر ہم ملت ابراہیمی کی اتباع سے متعلقہ آیات کا بغور مطالعہ کریں تو ان میں ہمیں توحید کا اثبات اور شرک کی مذمت ملتی ہے مثلاً قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے : ’’وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّۃِ إِبْرَاہِیْمَ إِلاَّ مَن سَفِہَ نَفْسَہُ‘‘(البقرۃ،آیت ۱۳۰) ترجمہ:’’ملت ابراہیم سے بے رغبتی وہی کرے گا جو محض بے وقوف ہو۔‘‘ قارئین کرام!اس آیت کو اور اس کے بعد والی تقریبا تین آیات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ ملت ابراہیم سے مراد توحید ربّ العالمین ہے ہم نے اختصار کی خاطر ان آیات کا ذکر نہیں کیا تفصیل کے لئے ملاحظہ کیجئے سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۳۱تا ۱۳۶۔
Flag Counter