Maktaba Wahhabi

106 - 124
عن ابیہ(محمد بن حنیفہ)عن جابر بن عبداللّٰه قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : سارعوا فی طلب العلم‘‘ جرح:۔ اس حدیث کی سند بظاہر بے حد عمدہ ہے اما م جعفر صادق ان کے والد محمد بن حنفیہ اعلی درجے کے متفق علیہ امام ہیں مگر ان کے صرف نام درج کردینے سے روایت صحیح نہیں ہوجاتی بلکہ سند کے تمام راویوں کی مکمل جانچ پڑتال کرنی پڑے گی اب اس کی سند میں ایک راوی ہے عبداللہ بن میمون بالاتفاق محدثین نے اس کو ضعیف کہا ہے ہم اس کوہی محدثین کے مرتب کردہ چند جرح وتعدیل کے اصول کے ذریعے اس راوی کو پرکھیں گے۔ سب سے پہلے عبداللہ بن میمون کے حالات تلاش کرنے ہونگے اگر حالات نہ ملیں تو روای مجہول ہوجائے گا اور حدیث پایہ اعتبار سے گر کر ضعیف ہوجائے گی۔اور اگر حالات مہیاء ہوگئے تو اس کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال دیکھیں جائیں گے اور اگرجرح یاتعدیل سے متعلق کوئی قول نہ مل سکا توراوی مستورہوجائے گااور روایت ضعیف ہوجائے گی۔اور اگر ائمہ جرح وتعدیل نے اس کے بارے میں کچھ فرمایا ہوگا کہ مثلاً یہ کاذب ہے یا صادق ہے اگر کاذب ہوا تو روایت موضوع ہوگی۔اور اگربالفرض محدثین نے اس کو صادق کہہ دیا(جو کہ قریب قریب ناممکن ہے)تواس میںمزید دوسرے عیوب کی تلاش ہوگی کہ کہیں اس کا حافظہ تو خراب نہیں اگر حافظہ ٹھیک نہیں تو روایت ساقط الاعتبار ہوجائے گی۔یا یہ دیکھا جائے گا کہ روایت بیان کرتے وقت فحش غلطیاں تو نہیں کرتایا روایت بالحدیث کے وقت غفلت سے کام تو نہیں لیتا۔یا اس کو روایت بیان کرنے میں وہم تو نہیں ہوتا مثلاً وہ اسطرح کہے!(کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما یا نہیں نہیں بلکہ شایدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا)وغیرہ۔یا راوی حدیث عمومی زندگی کے اندر جھوٹ تو نہیں بولتا اگرکہیں جھوٹ بولنا زندگی میں ثابت ہوجائے تو اس کی روایت کا حکم موضوع ہوگا۔اور اگراس
Flag Counter