عرضِ ناشر یہ ایک حقیقت ہے کہ جب انسان نے اس دنیا میں قدم رکھا تو علم اس کے ساتھ تھا۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ انسان اور عمل لازم و ملزوم ہیں اور عمل کے بغیر علم صحیح ہو، یہ ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام علم و عمل کا داعی ہے اور اسی کو ایمان کامل قرار دیتا ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ آج بھی قومیں حصولِ علم میں کوشاں ہیں اور اپنے نصب العین کے مطابق جس قدر ان کے ظاہر و باطن، قول و فعل اور فکر و عمل میں یکسانیت ہے اسی قدر وہ دنیاوی ترقی میں دوسروں سے آگے ہیں۔ ان کی برتری کا سکہ لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گیا ہے اور ان کی حیرت انگیز ترقیوں نے لوگوں کے اذہان کو مسخر کر لیا ہے۔ ان کا یہ عروج، نتیجہ ہے حصول علم کے ساتھ اسلام کے ایک فیصلہ صرف دل کے ساتھ ایمان لانے کا وہ فیصلہ ہے {لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ} کہ تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ انہوں نے اس حقیقت کو بھی خوب سمجھ لیا کہ اصل طاقت یقین کی طاقت ہے، جس پر ہو، جس حد تک ہو، جس کو جس قدر اپنے اصولوں پر یقین ہو گا اسی قدر وہ غالب رہے گا۔ آج سے نہیں بلکہ جب سے رب کریم نے اپنے رؤوف و رحیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر قرآن کریم نازل فرمایا اس کے حروف و کلمات اس طرح قلم بند کرا دیے کہ رہتی دنیا تک اس میں کمی بیشی ممکن نہ رہی۔ کیونکہ {اِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ} کی مہر اس پر ثبت فرما دی۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ دورِ حاضر میں دنیوی زندگی کو خودساختہ مصروفیات نے انسان پر اس طرح اپنا قبضہ جما لیا ہے کہ دین کی فکر مفلوج ہو کر رہ گئی۔ اس ہنگامہ میں ہر ایک فرد کے پاس اتنا وقت ہی نہ رہا کہ ضخیم کتابوں کا مطالعہ کر سکے اور ان کی اصطلاحات کو سمجھ سکے۔ استاد کے پاس تہ زانو ہو سکے، لہٰذا یہ احساس ہوا کہ جید علمائے کرام کی شروحات کو منظر عام پر لایا جائے۔ تو سب سے |