لیکن مشکل یہ ہے کہ ظن و تخمین کی بنیاد پر اختلافات رونما ہوئے تو فروعی مسائل میں چار مذاہب کو فروغ ملا۔ اصولِ دین یعنی عقائد میں بھی تین گروہ تیار ہوئے: ماتریدی، اشعری اور حنبلی۔ حنفی عقائد میں ماتریدی ہیں ۔ شافعیہ اور مالکی اشعریت پر کار بند ہیں ۔ حنبلی ماتریدی ہیں نہ اشعری بلکہ ان کا عقیدہ ظاہرِ قرآن وحدیث کے مطابق ہے۔ حنبلی احباب اتباعِ قرآن و سنت میں پوری امت میں ممتاز ہیں ، وہ فروع میں تقلید اور بے بنیاد رائے و قیاس کے قائل ہیں نہ اصولِ عقائد میں کسی کے مقلد ہیں ۔ اشعریت اور ما تریدیت سے بعض مسائل میں ان کا اختلاف ہے، تمام مسائلِ عقائد میں نہیں ۔
ماتریدیت ابو منصور ماتریدی (ت ۳۳۳ھ) کی طرف منسوب ہے، جنھوں نے مسائلِ عقائد میں ایک خاص طرز اختیار کیا اور بہت سے لوگ ان کے ان افکار کو ماننے لگے۔ ابو منصور ماتریدی اور امام ابو حنیفہ کے درمیان تین واسطے ہیں ۔[1]
امام ابو الحسن اشعری (۲۶۰۔ ۵۳۳ھ) اشعریت کے بانی کہے جاتے ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے پرانے خیالات سے رجوع کر لیا تھا، وہ امام احمد کے ہم خیال ہو گئے تھے اور ظاہرِ قرآن و حدیث سے ماخوذ عقائد پر ان کا ایمان تھا۔[2] ان کا سلسلہ نسب دس واسطوں سے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔
خراسان و عراق وغیرہ میں اشعری عقائد کا رواج ہوا اور ہندوستان اور ما وراء النہر میں ماتریدت کے قائل پائے جاتے ہیں ۔ ان دونوں گروہوں میں بارہ مسائل میں اختلاف پایا جاتا ہے، باقی سب مسائل میں متفق ہیں ۔[3]
عقائد کے سلسلے میں اسلاف کرام اور محققین محدثین یا اہلِ حدیث کا طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ما تریدی کہتے ہیں نہ اشعری بتلاتے ہیں اور نہ حنبلی ٹھہراتے ہیں ۔ وہ فقط متبع سنت کہلانا پسند کرتے ہیں ۔جو بات قرآن و حدیث میں آئی ہے، اسی کو اختیار کرتے ہیں ، اسی پر وہ ایمان رکھتے
|